سرینگر (جموں کشمیر) :وادی کشمیر میں تین پارلیمانی نشستوں پر 13 مئی سے انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن ان انتخابات سے قبل ہی وادی کی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے بیٹوں اور بیٹیوں کا داخلہ ہو چکا ہے۔ نیشنل کانفرنس (این سی)، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور ڈیموکریٹک پراگریسیو آزاد پارٹی (ڈی پی اے پی) میں خاندانی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد ہی سیاست میں قدم رکھا تاہم اُس وقت وہ یہ کہنے سے کترا رہی تھی کہ وہ اپنی ماں کے نقش قدم پر چلے گی۔ موجودہ پارلیمانی انتخابات کی مہم میں وہ اپنی والدہ کے لیے انتخابی سرگرمیوں میں مشغول ہے۔ 35 برس کی التجا مفتی اپنی والدہ کی میڈیا ایڈوائیزر ہیں۔ التجا، سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہے۔ کشمیری زبان نہ بول سکنے کے باعث وہ اردو میں ہی الیکشن ریلیوں سے خطاب کر رہی ہیں اور راجوری میں ایک جلسے کے دوران انہوں نے گوجری زبان میں بھی گوجر آبادی سے جڑنے کی کوشش کی۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے دو بیٹوں نے بھی سیاست میں قدم رکھا۔ وہ گزشتہ برس دسمبر میں دفعہ 370 کی منسوخی کے مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے والد کے ساتھ سپریم کوٹ کے باہر تصویر میں نمودار ہوئے۔ آج کل عمر کے دونوں فرزند - زامر اور ظاہر - پارلیمانی انتخابات کی مہم کے سلسلے میں اپنے والد کی شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یہ دونوں نوجوان نیشنل کانفرنس کے کارکنان کے ساتھ انتخابی ریلیوں میں تصاویر اور سیلفیز لیتے رہتے ہیں۔ تاہم میڈیا کے ساتھ بات کرنے سے وہ ابھی کترا رہے ہیں۔ عمر عبداللہ کے ان دونوں بیٹوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے، لیکن والد کی طرح یہ بھی کشمیری زبان میں بات نہیں کر پا رہے۔
سابق کانگریس لیڈر غلام نبی (بٹ) آزاد جنہوں نے تقریباً نصف صدی بعد کانگریس ترک کر اپنی سیاسی تنظیم تشکیل دی ہے، کے فرزند صدام آزاد نے بھی سیاست میں قدم رکھا۔ صدام اپنے والد کی جماعت ڈیموکریٹک پراگریسیو آزاد پارٹی کے امیداروں کے لئے الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ صدام پیشے سے تاجر ہیں اور وہ بھی شوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہے۔ صدام آزاد میڈیا کے ساتھ زیادہ گفتگو نہیں کر رہے ہیں اور انکو بھی کشمیری بولتے ہوئے ابھی تک نہیں سنا گیا ہے۔