عامر تانترے
جموں:مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر کی ایک فعال غیر سرکاری تنظیم ابابیل کے ایک سرگرم رکن رحمت اللہ پڈر کے خلاف حکام نے پبلک سیفٹی ایکٹ PSAکے تحت ایک مقدمہ درج کیا ہے جس کے بعد انہیں گرفتار کر کے جموں کے کوٹ بلوال جیل میں نظر بند کیا گیا ہے۔ اس نظر بندی سے متعلق حقائق منظر عام پر آنے کے بعد ایک تنازع شروع ہو گیا۔
ضلع کمشنر پولیس کی جانب سے پیش کردہ معلومات کی بنیاد پر کسی بھی ملزم کے خلاف ایک چارج شیٹ تیار کرتا ہے جسے ڈوزیئر کہتے ہیں۔ اس ڈوزئیر میں ان وجوہات کی تفصیل بیان کی جاتی ہے جس کے تحت کسی شخص کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ضلع کمشنر نے پڈر کے خلاف جو ڈوزئیر تیار کیا ہے اس کے مطابق وہ عسکریت پسندوں کا بالائے زمین کارکن یا اوور گراؤنڈ ورکر OGWہے۔
ڈوزیئر کے مطابق، ملزم کے خلاف پولیس اسٹیشن ڈوڈہ میں پانچ ایف آئی آرز درج ہیں جبکہ پولیس روزنامچہ میں ایک تحریر اور ایک استغاثہ بھی انکے خلاف درج ہے۔ ڈوزیئر کے مطابق رحمت اللہ پڈر کے خلاف 2016 کی دو ایف آئی آرز اشتعال انگیز تقریریں کرنے اور نوجوانوں کو ملک مخالف سرگرمیوں کے لیے اکسانے اور تین ایف آئی آر شکایت کنندگان کے گھر میں داخل ہوکر انکے خلاف حملہ کرنے کے معاملے میں درج کی گئی تھیں۔ پڈر کے خلاف اس سال اگست کے مہینے میں ایک روزنامہ ڈائری اور ایک استغاثہ درج کیا گیا ہے۔ روزنامہ ڈائری میں بتایا گیا ہے کہ ملزم نے موبائل ایپلیکیشن اور انٹرنیٹ کا استعمال سرحد پار لوگوں سے رابطہ کرنے اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے لیے کیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ایڈوکیٹ بابر حسن نہرو، جو ابابیل این جی او کے رضاکار بھی ہیں، نے کہا کہ رحمت اللہ پڈر پر اسلئے مقدمہ درج کیا گیا ہے کیونکہ وہ عوامی مسائل اجاگر کر رہے تھے۔ وکیل کے مطابق پڈر پر جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انکے مطابق رحمت اللہ نے حال ہی میں ڈوڈہ ٹاؤن کے علاقے اکرم آباد کے قریب ایک سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا مسئلہ اجاگر کیا جہاں اس نے لاکھوں روپے کی بدعنوانی اور گھپلے کو بے نقاب کیا تھا۔ وہ ایک سرکاری ملازم کے خلاف بھی آواز اٹھا رہے تھے، جو مسلم مالکان کی دکانوں میں بلا اجازت داخل ہوئے تھے اور یہ جواز پیش کیا تھا کہ یہاں بڑا گوشت فروخت کیا جاتا ہے۔