اننت ناگ (جموں کشمیر) :سینئر کانگریس لیڈر اور سابق وزیر پیرزادہ محمد سعید نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1971 میں کیا اور 1975 میں انہیں پردیش یوتھ کانگریس کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ وہ ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے چچا پیر حُسام الدین نے 1965 میں کوکرناگ حلقہ کے ایم ایل اے اور ایم ایل سی کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے والد، پیرزادہ محمد یوسف ایک مذہبی شخصیت تھی اور ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھی جن میں سے کسی کا بھی کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا۔
سیاسی سفر کا آغاز
سال 1977 میں سنجے گاندھی نے سعید کو جموں و کشمیر یوتھ کانگریس کا صدر مقرر کیا۔ 1982 تک انہیں پردیش کانگریس کمیٹی اور یوتھ کانگریس کمیٹی دونوں کے جنرل سیکریٹری کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ سعید نے اپنا پہلا اسمبلی الیکشن 1986 میں کوکرناگ حلقہ سے لڑا تھا، اور 32 ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس جیت کے بعد انہیں تعلیم اور سماجی بہبود کا وزیر مقرر کیا گیا۔ تاہم گورنر جگموہن نے ان کی تقرری کے ایک ماہ بعد اسمبلی کو 1990 میں تحلیل کر دیا تھا۔
سنہ 1996 میں اسمبلی الیکشن ہارنے کے باوجود سعید نے 2002 میں زبردست واپسی کی، کوکرناگ سیٹ پر نمایاں فرق سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں دیہی ترقی اور تعلیم کا وزیر مقرر کیا گیا۔ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے ایک بار پھر بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی اور انہیں تعلیم، حج اور اوقاف کا وزیر مقرر کیا گیا۔
اپنے وسیع سیاسی کیریئر کے دوران سعید مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے، جن میں دیہی ترقی و پنچایتی راج، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، شہری ترقی، مواصلات اور آئی ٹی، پبلک انٹرپرائزز، حج و اوقاف، تعلیم، فلوریکلچر، یوتھ سروسز اینڈ اسپورٹس میں اپنا کلیدی کردار نبھایا۔
اپنے اقتدار میں سعید نے زمینی سطح پر متعدد سرکاری اسکیموں کو متعارف کرایا، جیسے کہ رہبر تعلیم (آر ٹی) سرو شکشھا ابھیان (ایس ایس اے) اور اسکولوں میں مڈ ڈے میلز شامل ہیں۔ انہوں نے دیہی ترقی کے وزیر کے طور پر دیہات میں ترقی کو یقینی بنانے کے لیے پنچایت کی عمارتوں اور تعلیمی انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت میں متعدد پرائمری اسکولوں کو مڈل اسکولوں اور مڈل اسکولوں کو ہائی اسکولوں میں اپ گریڈ کیا گیا، جن میں خاص طور پر جموں و کشمیر کے دور دراز علاقے شامل ہیں۔
پیپر لیک گھوٹالہ
سنہ 2009 میں پیرزادہ محمد سعید کئی ہفتوں تک لگاتار سرخیوں میں رہے جب دسویں جماعت کے امتحان میں ان کے سوتیلے بیٹے پر جعلسازی کا الزام عائد کیا گیا تھا، اس دوران جوابی پرچے منظر عام پر آگئے تھے، جوابی پرچے دو مختلف ہینڈ رائٹنگز میں لکھے ہوئے پائے گئے۔ بعد میں کرائم برانچ کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ امیدوار کے جوابی پرچوں میں جموں کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے چند افسران کی مدد سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، پیر زیادہ محمد سعید اس وقت وزیر تعلیم تھے جس پر انہیں زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ اس غیر قانونی کام میں پیرزادہ نے اپنے بیٹے کی مدد کی ہے، تاہم پیر زادہ نے ان الزامات کی تردید کی تھی، جس کے بعد سنہ 2012 میں پیرزادہ نے اپنا استعفیٰ پیش کیا تاہم کانگریس کے ہائی کمان نے اسے قبول نہیں کیا، اور پیرزادہ سے وزیر تعلیم کا قلمدان واپس لیا گیا تاہم اسے کابینہ میں وزیر کے طور پر مستقل رکھا گیا، اس وقت عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز تھے۔