سرینگر: جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے اعلان کے بعد ہی یہاں کی سیاسی جماعتیں بالخصوص پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، اپنی پارٹی اور غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک پروگریسِو آزاد پارٹی ایسے بکھر گئیں ہیں جیسے خزاں کے موسم میں پتے زرد ہوکر درختوں سے گر کر جدا ہوجاتے ہیں۔
ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی جس کی بنیاد سابق کانگرس وزیر غلام نبی آزاد نے رکھی تھی ایک برس میں ہی ایسے بکھر گئی کہ خود آزاد نے بھی انتخابات کے بیچ سنیاس لےلیا۔
غلام نبی آزاد کی پارٹی کے پانچ امیدواروں نے گزشتہ روز خطہ چناب کے پانچ اسمبلی حلقوں بشمول بدروا، اندروال، بانہال اور رامبن سے کاغذات نامزدگی واپس لئے۔ ان امیدواروں نے اپنا فیصلہ اس وقت بدل دیا جب آزاد نے یہ اعلان کیا کہ وہ ناسازگار صحت کے سبب انتخابی مہم نہیں چلا سکتے ہیں۔
سابق وزیر و تاجر الطاف بخاری کی اپنی پارٹی بھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی ہے۔ اس پارٹی میں اب نو لیڑران رہ گئے ہیں جن کی کشمیر کی سیاست میں کوئی ساکھ نہیں ہے۔ اس پارٹی کے بقا انکے امیدواروں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر منحصر ہے۔
اگرچہ ان دو جماعتوں کے لیڑران مستعفی ہونے کے وقت عام زبان میں پارٹی کو الوادع کہہ رہے تھے تاہم پپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) میں لیڈران کا انخلا ایسے ہو رہا ہے جیسے دلبردار شاعر اپنی محبوبہ سے جدا ہورہے ہیں۔
پی ڈی پی کے لیڈر، پارٹی ایسے چھوڑ کے جارہے ہیں جیسے غالب اور فیض کے مشاعروں میں جانا مقصود ہو۔ جانے والوں میں سابِقہ وزراء، ترجمان اور عہدہ داران بھی شامل ہیں۔ جاتے جاتے وہ جذباتی اشعار بھی لکھ رہے ہیں اور اِن کے خطوط سے غالب اور جوئن الیا کی یادیں تازہ ہورہی ہیں۔
پی ڈی پی کے اسٹیٹ سیکرٹری روُف بٹ سنہ 2019 کے بعد پی ڈی پی میں کافی سرگرم تھے اور جس دوران محبوبہ مفتی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بند تھیں، یہی نوجوان لیڑر انکی آواز بن کے میڈیا کے ساتھ بات کرتے تھے۔ لیکن آج انہوں نے پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کی نزر ایک شعر لکھ کر استعفی دیا۔
ٹھکرا دو، اگر دے، کوئی ذلت کا سمندر
عزت سے ملا جو وہ قطرہ بھی بہت ہے۔۔۔