سرینگر (جموں و کشمیر) :ملک بھر میں یوگا کے بین الاقوامی دن 2024 کی تقاریب دھوم دھام کے ساتھ منائی گئیں۔ تاہم جسمانی اور ذہنی تندرستی کے مقصد سے کی جانے والی اس مشق، جس میں خود وزیر اعظم نریندر مودی نے خراب موسمی حالات میں کئی آسن کی قیادت کی، کو کشمیر میں ایک تنازعہ کا سامنا کرنا پڑا۔
جوں ہی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی قیادت میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے سرینگر میں تقریب کی قیادت کرنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کا استقبال کیا، سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور معروف آر ٹی آئی کارکن ڈاکٹر راجہ مظفر بھٹ نے شہر میں منعقدہ ’’یوگا کے عالمی دن کی تقریب میں خواتین سرکاری ملازمین کے ساتھ سلوک کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔‘‘ انہوں نے ان خواتین کو تقریب میں حصہ لینے کے لیے صبح 4 بجے ہی لباس تبدیل کرنے کی ضرورت پر بھی تنقید کی۔
سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پوسٹ میں راجہ مظفر بھٹ نے لکھا: ’’یوگا کے بین الاقوامی دن کی تقاریب کے سلسلے میں خواتین سرکاری ملازمین کو بدھ کی صبح 4 بجے ایس پی کالج سری نگر پہنچنے کو کہا گیا۔ وہ صبح 3 بجے اپنے گھروں سے نکلیں اور انہیں کالج میں اپنا لباس تبدیل کرنے اور پھر ایس کے آئی سی سی جانے کو کہا گیا۔ (یہ) منصفانہ عمل نہیں ۔ یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے اور اسے دہرایا نہیں جانا چاہیے۔ اس کے بجائے مرد عملہ کو (یوگا آسن کے لیے) بلایا جا سکتا تھا۔‘‘
محبوبہ مفتی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں ان جذبات کو دہراتے ہوئے کہا: ’’جشن منانے کا ایک موقع لوگوں کو خوفزدہ کر دیتا ہے۔ یوگا کے بین الاقوامی دن سے ایک دن پہلے تمام سرکاری ملازمین کو اسکولی بچوں کے ساتھ نا مناسب وقت پر (یعنی علی الصبح) مختلف مقامات پر آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ حاملہ ملازمین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک حاملہ خاتون کو اس کی ملازمت یا تقریب میں موجود رہنے کے درمیان انتخاب کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔‘‘
ان الزامات کے جواب میں جموں و کشمیر کے کالجوں کی ڈائریکٹر ڈاکٹر یاسمین اشائی نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے دعووں کی تردید کرتے ہوئے ایک پریس بیان جاری کیا۔ ’’ یوگا ڈے کی تقریبات کے بارے میں غلط معلومات کے جواب میں؛ جہاں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ ملازمین کو (پروگرام میں) شرکت کے لیے مجبور کیا گیا، خواتین ملازمین کو اپنے کپڑے تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا اور یہاں تک کہ حاملہ خواتین کو بھی تقریبات میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ تمام شرکاء نے رضاکارانہ طور پر اس تقریب میں حصہ لیا اور کسی بھی ملازم کو اس کی مرضی کے خلاف مجبور نہیں کیا گیا۔‘‘