سرینگر : پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیﷺ کی ولادت باسعادت کے حوالے سے انجمن اوقاف جامع مسجد سرینگر کے زیر اہتمام مرکزی جامع مسجد میں ایک پُر وقار مجلس رحمة للعالمین ﷺ کا انعقاد ہوا ۔ جس میں وادی کے جید علمائے کرام نے سرور کائناتﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی اس موقعہ پر متعدد نعت خوانوں نے بارگاہ رسالت میں نعت پیش کئے۔
مقررین نے پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات طیبہ کو رہتی دنیا تک مسلمانوں کیلئے مشعل راہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج جبکہ اسلام پورے عروج پر ہے اور دنیا کے کونے کونے میں قال اللہ وقال الرسول ﷺ کی بازگشت ۴۲ گھنٹے گونج رہی ہے لیکن جب ہم مسلمان کی بات کریں تو جتنا اسلام کو عروج حاصل ہورہا ہے اتنا ہی مسلمان اسلامی تعلیمات سے دور ہوتاجارہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اسلام کے آفاقی اصولوں اور پیغمبر اسلامﷺ کی سیرت کو اپنی عملی زندگی میںشامل کرنے قاصر نظر آرہے ہیں۔
مجلس کی صدارت کے فرائض میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق کو انجام دینی تھی لیکن حکام کی جانب سے موصوف کو ایک بار پھر اپنے گھر میں نظر بند کئے جانے کی وجہ سے وہ اس بابرکت مجلس میں شرکت سے قاصر رہے جس کی تمام شرکائے مجلس اور علما نے سخت الفاظ میں مذمت کی جبکہ میرواعظ کی عدم موجودگی سے شہر و گام سے آئے ہوئے نمازیوں اور عقیدتمندوں میں مایوسی پیدا ہوئی جو ماہ ربیع الاول کے آخری جمعہ کے موقعہ پر انکے مواعظ حسنہ سے استفادہ کیلئے جامع مسجد آئے تھے۔
اس موقعے پر مولانا مسرور عباس انصاری نے رسول اکرم ﷺ کی عظیم تعلیمات پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ خطہ کشمیر میں روز اول سے میرواعظین کشمیر کی دین اسلام کے تئیں خدمات کے تسلسل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارے مذہبی حقوق طاقت کے بل پر سلب کئے گئے ہیں اور میرواعظ کشمیر جنہیں ایک بار پھر 2 ستمبر سے نظر بند رکھ کر ایک طرف حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ میرواعظ آزاد ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موصوف کو نہ تو 3 ربیع الاول مشہور خوجہ دگر کے عظیم اجتماع میں شرکت کی اجازت دی گئی اور نہ ہی جامع مسجد میں اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کرنے کی اجازت دی جارہی ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔
اس دوران انجمن اوقاف جامع مسجد نے میرواعظ کی بلا جواز نظربندی اور ان کی منصبی اور دینی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف بھارت کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نئے کشمیر کے ویژن کی بات کرتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں لیکن دوسری طرف ایک ایسی آواز کو طاقت کے بل پر خاموش کردیا جاتا ہے جو ہمیشہ مسائل کے حل کے تعلق سے امن اور مذاکرات کی حامی رہی ہے اوران کی منصبی ، دینی اور سماجی ذمہ داریوں کو بلا جواز قدغن کے دائرے میں لایا جاتا ہے۔