اردو

urdu

ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کشمیر کی سیاست: غیر یقینی کے دور میں عبداللہ خاندان کی واپسی

کشمیر میں اسمبلی الیکشن کے بعد کی صورتحال پر ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر بلال بٹ کا تجزیہ...

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے 25 اکتوبر 2024 کو نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے 25 اکتوبر 2024 کو نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ (اے این آئی)

By ETV Bharat Urdu Team

Published : 6 hours ago

جب سے اسمبلی الیکشن کے انعقاد کے بعد جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس (این سی) کی قیادت والی مخلوط حکومت نے بھاگ ڈور سنبھالی ہے، یہاں کی سیاست تیزی سے دلچسپ ہوتی جا رہی ہے۔ انتخابات کے دوران جموں شہر اور اسکے چند متصلہ اضلاع نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ اپنی قربت کا مظاہرہ کیا اور بظاہر ان کے ایجنڈے کی توثیق کی ہے جو بی جے پی کے پاس خطے کے لیے ہے، حالانکہ بعض اوقات وہ اس ایجنڈے سے کتراتے بھی نظر آتے ہیں۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اتوار 20 اکتوبر 2024 کو سرینگر میں کشمیر میراتھن کے دوران دیگر شرکاء کے ساتھ (اے پی)

بھاجپا کی اس الجھن کا مظاہرہ ابھی چند روز قبل اس وقت سامنے آیا جب لیفٹیننٹ گورنر نے جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ (یونین ٹیریٹری) بننے کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر انہیں مدعو کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جموں میں لوگوں نے بھاری اکثریت سے بی جے پی کو ووٹ دیا۔ یہاں کے لوگوں نے دفعہ 370 کی منسوخی کی حمایت کرتے ہوئے اس کے ایجنڈے کے حق میں نعرے لگائے۔

اس کے برعکس کشمیر کے لوگوں نے متنازع ماضی کے باوصف واضح طور پر سب سے پرانی جماعت نیشنل کانفرنس کو اپنا بھرپور ساتھ دیا۔ لوگوں نے یہ بھی دکھایا کہ وہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے تئیں نرم گوشہ نہیں رکھتے چنانچہ انہیں اسمبلی میں نہ ہونے کے برابر نمائندگی فراہم کی۔ یہ رنجش اسلئے دکھائی کیونکہ پی ڈی پی نے سابقہ اسمبلی انتخابات کے بعد بی جے پی کو اقتدار میں شریک کیا۔ جموں خطہ کی وادی چناب اور پیر پنجال خطے نے اپنا ساتھ اور تعاون مختلف جماعتوں کے درمیان تقسیم کیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ وہ سیاست دان جنہوں نے پہلے ریاست پر حکمرانی کی تھی، دوبارہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہو گئے ہیں۔ انکے پاس عہدے اور ذمہ داریاں تو ہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ ان کے مینڈیٹ اور اختیارات پہلے کے مقابلے میں محدود ہیں۔ سابق ریاستی اسمبلی کے برعکس، جو کہ سب سے طاقتور قانون ساز اسمبلی تھی، موجودہ اسمبلی اتنی ہی کمزور ہے اسلئے بجا طور اس اسمبلی کے ارکان کے پاس اختیارات کم ہوں گے۔ زیادہ تر چیزوں پر مرکز کا براہ راست کنٹرول ہوگا اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہونے کی وجہ سے کابینہ کو محدود مینڈیٹ حاصل ہوگا۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بڈگام میں عرس کے موقع پر آستان عالیہ چرار شریف کے دورے کے دوران (پی ٹی آئی)

وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ زیادہ تر چیزوں کے لیے مرکز کے رحم و کرم پر ہوں گے، اور کانگریس اتحادی ہونے کی وجہ سے ان کے لیے باتیں منوانا ہمیشہ مشکل رہے گا۔ نیشنل کانفرنس، جو کبھی این ڈی اے کا حصہ تھی، نے بی جے پی کی قیادت کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے اور انہوں نے بدلے میں عمر عبداللہ کے لیے نرم گوشہ کا مظاہرہ کیا ہے۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ، نائب وزیر اعلیٰ سریندر چودھری کے ساتھ عہدہ سنبھالنے کے بعد (پی ٹی آئی)

اسی طرح کانگریس نے فی الحال عمر عبداللہ کی زیرقیادت کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جو اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ مرکز اور یوٹی کے درمیان تعلق پر نظر بنائے رکھے گی اور اس میں عملی شریک بھی نہیں ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے کسی بھی صورت حال کے لیے اپنا ذہن بنا لیا ہے کیونکہ عمر کی وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ خوشگوار ملاقاتیں کانگریس، این سی اتحاد کے لیے کوئی نیک فال نہیں دکھائی دیتا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان تعلقات کا ماضی اتنا دلکش نہیں ہے۔ نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ کو اس وقت جیل بھیج دیا گیا جب پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم تھے۔ جب اندرا گاندھی اقتدار میں تھیں تو فاروق عبداللہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ایک دوسرے کو عمر اور سیاست میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھنے کے علاوہ، عمر عبداللہ اور گاندھی بہن بھائیوں کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ بانٹنے کے لیے زیادہ اچھی یادیں نہیں ہیں۔

دوسری جانب مفتی خاندان فی الحال عوام کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے، کیا لوگ انہیں مستقبل میں معاف کریں گے؟ اسکے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ محبوبہ مفتی نے پی ڈی پی کے دور حکومت میں بطور وزیر اعلیٰ مظاہروں کے دوران نوجوان لڑکوں کے قتل کا دفاع کیا اور اب وہ آنسو بہا رہی ہے اور واویلا کرتی نظر آ رہی ہے، لیکن عوامی ذہن پر انکا کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ محبوبہ کی دختر، التجا مفتی نے انتخابی سیاست میں قدم رکھا تھا لیکن اسے اپنے نانا کے انتخابی گڑھ، بجبہاڑہ سے ذلت آمیز شکست ہوئی۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے منگل، 29 اکتوبر، 2024 کو سرینگر میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یوم پیدائش کی یاد میں ’رن فار یونٹی‘ تقریب کے دوران (پی ٹی آئی)

پی ڈی پی کے لیے عوامی ناراضگی وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس کیلئے اہم موقع بن گئی۔ کوئی حقیقی متبادل دستیاب نہ ہونے کے باعث کشمیری ووٹر کچھ راحت کی امید میں اپنی پہلی پسند کے طور پر نیشنل کانفرنس کی جانب رخ کرتے ہیں۔ ایک تاثر یہ ہے کہ راحت کی ہلکی سانس لینے کے علاوہ نیشنل کانفرنس سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں کیونکہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کے لیے ایک ہی پارٹی کو جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی نے ان پر 1987 میں انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کیا، جس کے بارے میں ایک تصور یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اسی (دھاندلی) کی کوکھ سے کشمیر میں افراتفری (عسکریت پسندی) نے جنم لیا۔

جماعت اسلامی، اس بار نیشنل کانفرنس کے خلاف بی جے پی کے حلیف کے طور پر نظر آئی۔ انجینئر رشید کی قیادت میں عوامی اتحاد پارٹی کے امیدوار، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ بھاجپا کے درپردہ حمایتی تھے، میدان میں کوئی قابل قدر کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ انجینئر رشید نے بارہمولہ پارلیمانی حلقے سے اسوقت چناؤ جیتا جب وہ تہاڑ جیل میں بند تھے اور عمر عبداللہ و سجاد لون جیسے بھاری بھرکم سیاستدانوں کو چاروں شانے چت کرایا تھا۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سالانہ عرس کے موقع پر چرار شریف درگاہ کے دورے کے دوران (پی ٹی آئی)

سیاست میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی، کانگریس نے ماضی میں شیخ عبداللہ کو قید کر دیا لیکن بعد میں ان سے دوبارہ دوستی کی۔ بی جے پی نے (دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد)کشمیری رہنماؤں کو قید کر دیا لیکن قوی امکان ہے کہ مستقبل میں انہی لیڈروں کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے پہلے ہی یہ تاثر پھیلانے کی مہم شروع کی ہے کہ دلی کا دربار خوش ہے اور ریاستی حیثیت کی بحالی سے متعلق وعدے اور پیغامات عوامی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔

امکان ہے کہ این سی آرٹیکل 370 کی بحالی پر ایک مخصوص انداز میں بات کرے گی، تاکہ بی جے پی کو ناراض نہ کیا جائے۔ یہ ویسے ہی ہوگا جس طرح پارٹی نے اندرونی خودمختاری کے معاملے کو سابق ریاست میں ہینڈل کیا تھا۔ اشک شوئی کا عمل جموں و کشمیر میں بدستور غالب رہے گا اوراہم عوامی مسائل اسی طرح پس منظر میں رہیں گے جس طرح وہ ماضی میں رہا کرتے تھے۔

(بلال بٹ، ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر ہیں)

یہ بھی پڑھیں:عمر عبداللہ کی حکومت دفعہ370 کی بحالی پر جموں کشمیر اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کو تیار

ABOUT THE AUTHOR

...view details