اردو

urdu

ETV Bharat / jammu-and-kashmir

دس برس بعد اسمبلی انتخابات: جانیے اس دہائی میں جموں کشمیر کی سیاست کیسے بدلی - JK Assembly Election

جموں و کشمیر میں ایک دہائی کے طویل انتظار کے بعد اسمبلی انتخابات کا اعلان ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ستمبر اکتوبر 2024 میں تین مراحل میں انتخابات کے انعقاد کا شیڈول جاری کیا ہے۔ جموں و کشمیر کی اسمبلی میں 90 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے، جس میں 3.71 لاکھ نئے ووٹرز بھی شامل ہوں گے۔

ا
جموں کشمیر میں ستمبر اکتوبر میں ہوں گے انتخابات (ای ٹی وی بھارت)

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 17, 2024, 1:29 PM IST

سرینگر (جموں کشمیر) :جموں کشمیر میں بالآخر دس سال کے طویل انتظار کے بعد اسمبلی انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ جمعہ کے روز الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) نے اعلان کیا کہ یونین ٹیریٹری میں اسمبلی انتخابات تین مراحل میں منعقد کیے جائیں گے۔ پہلے مرحلے کا آغاز 18 ستمبر سے ہوگا، دوسرا مرحلہ 25 ستمبر کو اور آخری مرحلہ یکم اکتوبر کو ہوگا۔ یونین ٹیریٹری کی اسمبلی میں کل 90 نشستیں ہیں، جن میں 43 نشستیں جموں اور 47 کشمیر کے لیے مختص ہیں۔ انتخابات کے نتائج کا اعلان 4 اکتوبر کو کیا جائے گا اور اندازاً 3.71 لاکھ نئے ووٹرز اس عمل میں حصہ لیں گے۔

اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان جموں و کشمیر کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل لمحہ ہے کیونکہ خطے میں آخری مرتبہ سال2014 میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ نئے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کئی برسوں سے موضوع بحث بنی رہی ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے خطے میں انتخابات کا انعقاد کی ہدایت نے ان انتخابات کے شیڈول میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

دسمبر 2023 میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے الیکشن کمیشن کو کہا تھا کہ وہ جموں و کشمیر میں 30 ستمبر 2024 تک انتخابات منعقد کرے۔ یہ حکم عدالت کے ایک فیصلے کا حصہ تھا، جس میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت (دفعہ 370) کے خاتمے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے بعد کورٹ نے تاریخی فیصلہ صادر کیا گیا تھا۔ 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا تھا جس سے سابق ریاست (جموں کشمیر) کو آئین ہند کے تحت خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ مرکزی سرکار نے نہ صرف اس خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا بلکہ ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز - جموں و کشمیر اور لداخ - میں تقسیم کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں آرٹیکل 370 کے خاتمے پر توثیقی مہر ثبت کر دی۔ لیکن جموں کشمیر کا ریاستی درجہ جلد از جلد بحال کرنے پر زور دیا۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ستمبر 2024 کے آخر تک اسمبلی انتخابات منعقد کیے جائیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ وہ تنظیم نو ایکٹ کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے۔ تاہم خطے میں ریاستی حیثیت کی بحالی ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے، جس پر حکومت سے جلد اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے۔

آخری بار جموں و کشمیر میں انتخابات کب ہوئے تھے؟

جموں و کشمیر میں آخری مرتبہ اسمبلی انتخابات 2014 میں ہوئے تھے اور وہ انتخابات ایک سیاسی ڈرامے کے دور میں منعقد ہوئے تھے۔ اس وقت عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ تھے اور ریاست پر کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے اتحاد کے تحت حکمرانی تھی۔ تاہم انتخابات سے قبل یہ اتحاد ٹوٹ گیا، جس سے سخت مقابلے والے انتخابات کی راہ ہموار ہوئی۔

2014 کے انتخابات پانچ مراحل میں ہوئے تھے، جو 25 نومبر سے 20 دسمبر تک جاری رہے۔ علیحدگی پسند گروپوں کی جانب سے بائیکاٹ کی کال کے باوجود، الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق، ووٹر ٹرن آؤٹ 65 فیصد رہا۔ جب 23 دسمبر کو نتائج کا اعلان کیا گیا تو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) 28 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری، جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) نے 25 نشستیں حاصل کیں، جو جموں و کشمیر کی سیاسی منظر نامے میں اس کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔ نیشنل کانفرنس صرف15 نشستوں پر سمٹ گئی، جب کہ کانگریس نے 12 نشستیں حاصل کیں۔ دیگر چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے باقی نشستیں حاصل کیں۔

انتخابات کے بعد عمر عبداللہ نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور مختصر عرصے کے لیے ریاست میں صدر راج نافذ کر دیا گیا۔ BJP نے 2014 کے عام انتخابات میں اپنی حالیہ فتح کے بعد PDP کے ساتھ غیر متوقع اتحاد تشکیل دیا، جس میں مفتی محمد سعید وزیر اعلیٰ اور BJP کے نرمل کمار سنگھ نائب وزیر اعلیٰ بنے۔ یہ اتحاد جموں و کشمیر میں BJP کی پہلی بار حکمرانی میں شرکت کا سبب بنا۔

تاہم یہ اتحاد ابتدا سے ہی چیلنجز کا شکار رہا۔ مفتی محمد سعید کی جنوری 2016 میں وفات کے بعد ریاست میں ایک بار پھر گورنر راج نافذ کیا گیا، جس کے بعد ان کی دختر محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ بن گئیں۔ بالآخر جون 2018 میں BJP نے اپنا تعاون حکومت سے واپس لے لیا، جس کے بعد محبوبہ مفتی نے استعفیٰ دے دیا۔ ریاست میں گورنر راج دوبارہ نافذ کر دیا گیا اور بعد میں اس سال کے آخر میں اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی۔

اگست 2019 میں مرکزی حکومت کے آرٹیکل 370 کے خاتمے اور ریاست کو تقسیم کرنے کے فیصلے نے خطے کے سیاسی منظر نامے کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیا۔ نومبر 2018 میں ’فیکس موصول نہ ہونے‘ کے تنازعے کے درمیان اسمبلی تحلیل کی گئی، فیکس میں ایک نئی حکومت کے قیام کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

فیکس مشین خراب !

22 نومبر 2018 کو ایک عجیب و غریب واقعات نے جموں و کشمیر کے سیاسی منظر نامے کو ہی تبدیل کر دیا۔ اُس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک نے دعویٰ کیا کہ ایک ریاستی تعطیل کی وجہ سے اور فیکس مشین خراب ہونے کی وجہ سے وہ محبوبہ مفتی کی طرف سے بھیجے گئے ایک اہم فیکس کو موصول نہ کر سکے۔ فیکس میں حکومت کے قیام کا دعویٰ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ فیکس 21 نومبر کو بھیجا گیا تھا، جس میں محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP)، نیشنل کانفرنس، اور کانگریس کے درمیان اتحاد کا اعلان کیا گیا تھا، جو طویل عرصہ سے خطے میں گورنر راج کے تحت ریاست کا کنٹرول واپس لینے کی ایک کوشش تھی تاہم یہ کوششیں ’فیکس مشین خراب‘ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکیں۔

فیکس بھیجنے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ستیہ پال ملک نے اسمبلی کی تحلیل کا حکم دے دیا، جس میں تینوں جماعتوں (جنہوں نے فیکس میں حکومت کے قیام کا دعویٰ کیا تھا) کے درمیان 87 نشستوں میں سے 56 کی مجموعی تعداد تھی۔ گورنر کا یہ عذر کہ ان کا ’’دفتر عید میلاد (کی چھٹی) کے باعث بند تھا اور اس لیے فیکس کو پراسیس نہیں کیا جا سکا - کو سبھی نے شک کی نگاہ سے دیکھا۔ ستیہ پال ملک کا دعویٰ کہ ان کے دفتر میں فیکس آپریٹر اور ایک فعال نظام کی کمی تھی پر زیادہ لوگوں نے اعتبار نہیں کیا۔

سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے فوراً ملک کے بیان کو چیلنج کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر کوئی فیکس موصول کرنے والا موجود نہیں تھا تو اسمبلی کی تحلیل کیسے عمل میں لائی جا سکتی تھی؟ عمر نے اپنے تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہاں تک کہ تعطیلات کے دوران بھی عملہ انتظامی امور کو آسانی سے چلاتا تھا۔ فیکس کے تنازعے نے سیاسی طنز اور تنقید کا مرکز بنا دیا۔ عمر نے فیکس مشین کو ’یک طرفہ‘ قرار دیا، جو دستاویزات بھیجنے کے قابل تو ہے لیکن اہم مواصلات کو وصول کرنے کے قابل نہیں ہے۔ محبوبہ مفتی نے بھی اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور گورنر کی رہائش گاہ پر ’عجیب و غریب‘ ٹیکنالوجی کا مذاق اڑایا۔

عمر اور محبوبہ نے ٹویٹر کے ذریعے گورنہ انتظامیہ کی سخت تنقید کی اور فیکس مشینوں کے بارے میں میمز شیئر کیے گئے۔ عمر نے ایک فیکس مشین کا GIF پوسٹ کیا جو دستاویز کو چھاپتی تو ہے تاہم اسے فوراً تباہ کر دیتی ہے، جس پر مذاقیہ طور پر لکھا تھا: ’’راج بھون جموں فیکس مشین کام پر۔‘‘ جواب میں، محبوبہ نے ایک (ہڈیوں کے) ڈھانچے کی تصویر ٹویٹ کی جس پر درج تھا: ’’درحقیقت، وہ جو جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

ABOUT THE AUTHOR

...view details