سرینگر (جموں کشمیر) :دفعہ 370 کی منسوخی اور 2014 کے بعد پہلی مرتبہ جموں کشمیر میں پہلی مرتبہ اسمبلی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور الیکشن کی تیاریوں کے بیچ خطے کے سیاسی منظر نامے میں زبردست تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ یو ٹی میں 1951 میں منعقد ہوئے پہلے انتخابات سے لے کر آج تک کی انتخابی تاریخ، جمہوری ترقی، بدلتے ہوئے اتحاد اور اہم آئینی تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ جموں کشمیر کے انتخابی سیاسی سفر کے اہم مراحل پر ایک طائرانہ نظر:
جمہوری طرزِ حکمرانی کی ابتدا: 1951
سال 1951 میں جموں و کشمیر میں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے، جو کہ خطے کے آئین کی تشکیل میں ایک اہم لمحہ تھا۔ ان انتخابات میں شیخ عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس (این سی) نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس انتخاب نے خطے کے ابتدائی جمہوری ڈھانچے کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا اور شیخ عبداللہ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے، جسے بعد میں وزیر اعلیٰ تک محدود کر دیا گیا، اور اس خطے کی سیاسی اصطلاحات اور حکومتی ڈھانچے میں تبدیلیوں کی عکاس ہیں۔
سال 1953سیاسی بحران اس وقت پیدا ہوا جب اس وقت کے غیر منقسم جموں کشمیر کے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کو بھارت کے اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے برطرف کر دیا۔ اس برطرفی کے نتیجے میں بخشی غلام محمد کو نیا وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ اس دور سے طاقت کی حرکیات میں تبدیلی واقع ہوئی اور سیاسی قوتوں کے نئے امتزاج کی تشکیل ہوئی۔
سال 1963سیاسی ماحول ’’میرپور تھانہ‘‘ تنازعہ کی وجہ سے مزید غیر مستحکم ہو گیا، جس نے مرکز کے حکام اور یہاں کی حکومت کے درمیان تعلقات کو مزید کشیدہ کیا۔
1964:بخشی غلام محمد کی برطرفی کے بعد غلام محمد صادق کو چیف منسٹر مقرر کیا گیا۔ صادق کے دور حکومت کو سیاسی ماحول کو مستحکم کرنے اور مختلف دھڑوں کی شکایات کو دور کرنے کی کوششوں سے نشان زد کیا گیا۔ ان کے دور حکومت نے آئندہ سیاسی پیشرفتوں کی بنیاد رکھی۔
سیاسی قوتوں کا عروج اور کلیدی معاہدے: 1960-1980
1967: اسمبلی کے انتخابات میں معلق فیصلہ سامنے آیا، نیشنل کانفرنس سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری لیکن اسے مکمل اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ اس کے نتیجے میں انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے درمیان ایک مخلوط حکومت کی تشکیل ہوئی، جو کہ ایک منقسم سیاسی منظر نامے کی عکاسی کرتی ہے۔
1972: انڈین نیشنل کانگریس کے سید میر قاسم چیف منسٹر بنے۔ ان کے دور حکومت کو علاقائی حکومت اور مرکزی حکام کے درمیان فرق کو کم کرنے کی کوششوں سے نشان زد کیا گیا، جس کے نتیجے میں اہم سیاسی مذاکرات اور معاہدے ہوئے۔
1975: میں اندرا-شیخ معاہدے کے بعد شیخ عبداللہ دوبارہ اقتدار میں واپس آئے۔ یہ معاہدہ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ تھا، جس کا مقصد علاقائی شکایات کو دور کرنا اور سیاسی معمولات کی بحالی تھا۔ عبداللہ کی واپسی نے جموں و کشمیر کی سیاست میں نیشنل کانفرنس کے اثر و رسوخ کو دوبارہ زندہ کیا۔
1977: انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے شیخ عبداللہ کی قیادت میں واضح اکثریت حاصل کی۔ اس کامیابی نے مخلوط حکومت کے دور کو ختم کیا اور خطے کی سیاست میں این سی کی برتری کو بحال کیا۔ انتخابی نتائج نے پارٹی کی مضبوط حمایت اور اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کیا۔
1986:راجیو-فاروق معاہدہ، وزیراعظم راجیو گاندھی اور چیف منسٹر فاروق عبداللہ کے درمیان ایک معاہدہ، جس کا مقصد سیاسی استحکام کی بحالی اور علاقائی بے چینی کو دور کرنا تھا۔ تاہم، 1987 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے، جس سے بڑھتی ہوئی بے چینی کو تقویت ملی اور خطے میں مسلح عسکریت پسندی کا آغاز ہوا۔
سیاسی منظرنامہ: 1980-2000
1982: شیخ عبداللہ کا فرزند ڈاکٹر فاروق عبداللہ وزیر اعلیٰ بنا۔ اس کے دور حکومت کو بڑھتی ہوئی بے چینی اور عسکریت پسندی کے درمیان استحکام برقرار رکھنے کی کوششوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
1984: فاروق عبداللہ کے بعد غلام محمد شاہ، جو کہ ’’گل شاہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، ایک متنازعہ اقدام میں چیف منسٹر بنے۔ ان کے مختصر دور حکومت کو سیاسی عدم استحکام نے گھیر لیا، جس کے نتیجے میں فاروق عبداللہ کی واپسی ہوئی۔
1990-1996: صدر راج کا نفاذ، جموں و کشمیر کی تاریخ میں مرکزی انتظامیہ کی براہ راست حکمرانی کا سب سے طویل دور، جس نے شدید سکیورٹی چیلنجز اور علاقائی حکمرانی میں ناکامی کی عکاسی کی۔
1996: فاروق عبداللہ صدر راج کے خاتمے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آئے۔ سخت حالات میں منعقد ہونے والے انتخابات میں عبداللہ کی این سی نے اکثریت حاصل کی، جس سے سیاسی معمولات کی جزوی بحالی کی عکاسی ہوئی۔
نئی سیاسی قوتوں کا ظہور: 2000-سے اب تک
2002: پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے وجود اور ارتقاء، جس کی قیادت مفتی محمد سعید نے کی، ایک اہم تبدیلی کی علامت بنی۔ پی ڈی پی نے انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت قائم کی، جس نے علاقائی مسائل کو حل کرنے اور تعاون کو فروغ دینے کے لئے ایک نئی سیاسی ترتیب کی عکاسی کی۔
2005: کانگریس کے غلام نبی آزاد پی ڈی پی کے ساتھ مل کر چیف منسٹر بنے۔ ان کے دور حکومت میں علاقائی شکایات کو دور کرنے اور ترقیاتی اقدامات کو نافذ کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن امرناتھ زمین تنازعہ کے باعث مخلوط حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
2008: انتخابات کے نتیجے میں معلق اسمبلی سامنے آئی۔ نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ نے کانگریس کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت تشکیل دی، جو کہ ایک منقسم سیاسی ماحول میں مخلوط حکومت کے تسلسل کی عکاسی کرتی ہے۔
2015: پی ڈی پی کے مفتی محمد سعید نے بی جے پی کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت تشکیل دی۔ ان کے دور حکومت میں بھی علاقائی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن 2016 میں ان کی اچانک موت کے باعث حکومت کا اختتام ہو گیا۔
2016: مفتی محمد سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی نے پہلی خاتون چیف منسٹر کے طور پر عہدہ سنبھالا۔ ان کے دور حکومت کو بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی اور سکیورٹی مسائل کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ 2018 میں بی جے پی کی حمایت واپس لینے کے بعد گورنر راج کا نفاذ عمل میں آیا۔
2019: جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ، آرٹیکل 370 کی منسوخی، جس کے نتیجے میں خطے کی تشکیل نو ہوئی اور اسے دو یونین ٹیریٹریز - جموں و کشمیر اور لداخ - میں تقسیم کیا گیا۔ یہ آئینی تبدیلی علاقے کی سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں ایک اہم تبدیلی کی علامت بنی۔
سیاسی جماعتیں اور تحریکیں
جموں پراجا پریشد: 1950 کی دہائی میں قائم ہونے والی پراجا پریشد ایک اہم سیاسی تحریک تھی جو جموں و کشمیر کے ہندوستان میں مکمل انضمام اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کی حامی تھی، جس نے علاقائی سیاست اور انضمامی مطالبات کو متاثر کیا۔