سرینگر:پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے آج اسمبلی انتخابات کے لئے امیدواروں کی دوسری فہرست جاری کی جس میں محبوبہ مفتی کی دختر التجا مفتی ضلع اننت ناگ کے بجبہاڑہ حلقے سے انتخاب لڑیں گی۔ التجا مفتی کو تین مرتبہ اسی حلقے سے رکن رہ چکے عبدالرحمن ویری کی جگہ متعارف کیا گیا ہے۔
التجا مفتی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کافی سرگرم رہیں اور حالیہ پارلیمانی انتخابات میں انہوں نے والدہ کے لئے مہم بھی چلائی۔ رحمان ویری کو شانگس حلقے سے نامزد کیا گیا ہے جہاں کے سابق امیدوار پی ڈی پی چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں چلے گئے ہیں۔
پی ڈی پی کے یوتھ صدر وحیدالرحمٰن پرہ کو پلوامہ حلقے سے امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس حلقے سے پلوامہ ضلع کونسل کے چیرمین باری اندرابی بھی دعویدار تھے۔ وحید پرہ کو حالیہ لوک سبھا الیکشن میں نیشنل کانفرنس کے آغا روح اللہ کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے۔ باری اندرابی نے محکمہ پولیس کے قانونی ونگ میں ایک اعلیٰ عہدے سے سبکدوش ہوکر 2019 میں پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
پی ڈی کی دوسری فہرست منظر عام پر (ای ٹی وی بھارت) وہیں شوپیان کے زینہ پورہ حلقے سے سابق ایم ایل اے اعجاز میر کی جگہ پارٹی کے دیرینہ کارکن و سٹیٹ سیکرٹری غلام محی الدین کو نامزد کیا گیا ہے۔ پارٹی ذرائع نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ غلام محی الدین پی ڈی پی سربراہ کے سابق پی اے رہ چکے ہیں اور محبوبہ کے وفادار کارکنوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔
اعجاز میر نے سنہ 2014 میں اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ انکے پہلے انتخابات تھے۔ انہوں سنہ 2020 میں ڈی ڈی سی الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ پارٹی کے آج کے فیصلے سے رحمان ویری، اعجاز میر اور باری اندرابی کافی ناراض ہیں۔ اور اس فیصلے سے ان حلقوں میں پی ڈی پی کو انتخابات میں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ رحمان ویری سابق ریاست کی اسمبلی میں پی ڈی پی کے پہلے اسمبلی ممبر بن گئے تھے۔ سنہ 1998 میں جب کانگریس کو الوداع کہنے کے بعد پی ڈی پی کی داغ بیل ڈالی گئی تھی تو محبوبہ مفتی نے بیجبہاڑہ اسمبلی حلقے سے استعفیٰ دیا تھا جبکہ وہ اسمبلی میں کانگریس لیجسلیچر پارٹی کی سربراہ تھیں۔ اسکے بعد حلقے میں ہوئے ضمنی انتخابات میں عبدالرحمان ویری کو متعارف کیا گیا تھا جنہوں نے جیت درج کی تھی۔ اگلے سبھی انتکابات میں ویری کو اسی حلقے سے چناؤ میں اتارا گیا اور وہ ہر بار کامیاب ہوئے۔ اس دوران وہ متعدد بار اہم ریاستی وزارتوں پر فائز رہے۔
ان حلقوں کے علاوہ پی ڈی پی نے محبوبہ مفتی کے ماموں سرتاج مدنی کو دیوسر حلقے سے، غلام نبی لون ہانجورہ کو چرار شریف سے، محبوب بیگ کو اننت ناگ سے جبکہ ترال حلقے سے نیشنل کانفرنس کے سابق وزیر مرحوم علی محمد نائک کے فرزند رفیق احمد نائک کو نامزد کیا ہے۔
ترال میں پی ڈی پی کے ترجمان ہربخش سنگھ اور دیگر کارکنان دعویدار تھے لیکن انہیں پارٹی منڈیٹ سے محروم رکھا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ ہربخش سنگھ بھی کافی ناراض ہے۔ رفیق احمد نائک ، سابق اسمبلی اسپیکر اور ممبر پارلیمنٹ علی محمد نائیک کے فرزند ہیں اور وہ صرف ایک ماہ قبل بحیثیت ہیڈ کلرک محکمہ قانون سے سبکدوش ہوگئے تھے۔ علی محمد نائیک نے نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر لوک سبھا الیکشن لڑتے ہوئے 1999 میں اسوقت کے اننت حلقے کے ممبر پارلیمنٹ مفتی محمد سعید کو ہرایا تھا۔ رفیق نائیک نے پارٹی کو یقین دلایا ہے کہ انکے والد کا سیاسی اثر و رسوخ ابھی تک علاقے میں قائم ہے جسکا نہیں فائدہ ہوسکتا ہے۔ ترال حلقے سے پی ڈی پی نے سابق ایم ایل اے مشتاق شاہ کو منڈیٹ نہیں دیا ہے کیونکہ وہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے سیاست سے کم و بیش کنارہ کش ہوگئے ہیں۔
اس سے قبل پی ڈی پی نے 14 حلقوں سے امیدواروں کا اعلان کیا تھا۔ پارٹی ذرائع نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں مزید حلقوں سے امیدواروں کا فہرست جاری کیا جائے گا۔ مبصرین کے مطابق اس بار ماضی کے برعکس پی ڈی پی کو جنوبی کشمیر کی سیٹوں پر سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ماضی کے برعکس اب جنوبی کشمیر اس پارٹی کا گڑھ نہیں رہا ہے۔ 2015 کے اسمبلی انتخابات کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ حکومتی گٹھ جوڑ کے بعد پارٹی کی سیاسی ساکھ متاثر ہوئی اور 2016 میں محبوبہ مفتی کے دور میں ہوئی مبینہ انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرکز بھی جنوبی کشمیر رہا جس سے اس پارٹی کے تئیں لوگوں کا رجحان تبدیل ہوا ہے۔ 2014 کے بعد جو لوک سبھا انتخابات منعقد ہوئے ان میں پی ڈی پی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مبصرین کے مطابق حد بندی کے بعد اسمبلی حلقوں کی نئی تشکیل شدہ شکل میں بھی پی ڈی پی کو مشکلات کا سامنہ کرنا پڑسکتا ہے۔