اننت ناگ:وادی کشمیر ریشی منیوں، اولیاء کاملین اور بزرگوں کی سر زمین ہے، ایسے ہی اولیاء کرام میں بابا بام الدین رحمت اللہ علیہ کا نام بھی شمار کیا جاتا ہے، جنہوں نے دین کی سر بلندی اور یاد خداوندی میں خود کو وقف کیا۔
بابا بام الدین کی درگاہ ضلع اننت ناگ کے مٹن بُمزوہ کی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔اس درگاہ پر نہ صرف مسلم بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی یہاں آکر اپنے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ معروف سیاحتی مقام پہلگام کی شاہراہ کے متصل واقع اس درگاہ پر پہلگام جانے والے متعدد ملکی و مقامی سیاح بھی حاضری دیتے ہیں۔
بابا بام الدین ضلع کولگام کے قیموہ علاقہ سے تعلق رکھتے تھے۔کہتے ہیں کہ ایک زمانہ میں بابا بام الدین غیر مسلم تھے، جن کا اصلی نام، بُم سادھو، تھا۔ انہوں نے بُمزوہ کی پہاڑی پر ایک غار میں مندر تعمیر کیا تھا،جہاں وہ بُت برستی کر رہے تھے ،وہ غار نما مندر آج بھی موجود ہے جسے آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور اس کے اردو گرد 200 میٹر کے فاصلہ تک تعمیرات اور کان کنی کرنا ممنوع ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک روز ولی کامل شیخ نور الدین نورانی رحمت اللہ علیہ کی ملاقات بابا بام الدین سے ہوئی، جنہوں نے بابا بام الدین کو دین کی دعوت دی۔ اسلام قبول کرنے کے لئے بابا بام الدین نے شیخ العالم رحمت اللہ علیہ کو کئی شرائط رکھے، جس کے بعد شیخ العالم کے کمالات سے متاثر ہو کر بابا بام الدین نے بُت پرستی چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔
اسلام کا راستہ اپنانے کے بعد بابا بام الدین، شیخ العالم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے اور وہ یاد خداوندی میں تاحیات مشغول ہوگئے۔بارہ برس تک خدمت دین کے خدمت کے بعد ان کی وفات ہوگئی۔حضرت سخی زین الدین ولی رحمت اللہ علیہ، بابا بام الدین کے مرشد تھے۔بابا بام الدین سے صحبت حاصل کرنے کے بعد سخی زین الدین ولی بلند پایہ ولی کاملین میں شمار ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ روحانی کمالات کی بدولت بابا بام الدین کے دیدار کے لئے لوگوں کی قطاریں لگ جاتی تھیں تاہم وہ یاد خدا وندی میں اس قدر مشغول رہتے تھے کہ وہ کسی سے نہیں ملتے۔ان کے انتقال کے بعد ان کی درگاہ پر سال بھر عقیدت مندوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، خاص کر ان کے عرس پر عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے، جس دوران شب خوانی ذکر و اذکار اور درود کی محفلیں آراستہ کی جاتی ہیں۔