اردو

urdu

ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کشمیر میں کانگریس مخمصے کا شکار، حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن کے کردار میں - CONGRESS DILEMMA IN KASHMIR

جموں و کشمیر میں کانگریس اور این سی کے بیچ اتحاد کے باجود تنقید و تکرار کی کیا وجہ ہے؟ ایک خاص رپورٹ۔۔۔۔

کشمیر میں این سی اور کانگریس کے بیچ بڑھتی دوری پر خاص رپورٹ
کشمیر میں این سی اور کانگریس کے بیچ بڑھتی دوری پر خاص رپورٹ (ETV Bharat/ANI)

By Mir Farhat Maqbool

Published : Feb 11, 2025, 10:17 AM IST

سرینگر:کانگریس پارٹی جموں و کشمیر میں مخمصے سے دوچار ہے۔ یہاں تک کہ نیشنل کانفرنس حکومت کا حصہ رہتے ہوئے وہ اپوزیشن کا کھیل کھیل رہی ہے۔ دونوں جماعتوں نے جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات ایک ساتھ لڑے تھے لیکن عمر عبداللہ کی قیادت میں نئی کابینہ کی حلف برداری کے بعد یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سے الگ دکھائی دے رہی ہیں۔

جب کہ موجودہ ریاستی کانگریس کمیٹی کے صدر طارق حمید قرہ نے اشاروں اشاروں میں عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت کو لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہونے کا الزام لگایا، وہیں کانگریس کے سابق ریاستی صدر وقار رسول نے عمر حکومت کو جموں و کشمیر کی تاریخ کی "سب سے ناکام حکومت" قرار دیا۔

حکومت کے قیام کے بعد سے اپنے متعدد بیانات میں، جموں و کشمیر ریاستی کانگریس کمیٹی کے صدر طارق حمید قرہ نے حکومت کو عوام کے لیے کام کرنے کے قابل نہ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اگرچہ قرہ نے ریاستی درجے کی بحالی کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے این سی کی زیرقیادت حکومت پر اپنی تنقید کا دفاع کیا ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ کانگریس لیڈر تیر مرکزی حکومت پر چلا رہے ہیں لیکن نشانہ عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت ہے۔

بزنس رولز کی عدم موجودگی اور ریاستی حیثیت کی بحالی میں تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے قرہ نے سری نگر میں پارٹی دفتر میں اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ لوگوں میں نفرت پیدا ہو گئی ہے اور وہ منتخب جمہوری حکومت پر اعتماد کھو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "این سی کے ایک اتحادی پارٹنر کے طور پر میں اس سے درخواست کروں گا کہ وہ شکایات کو دور کرنے اور مقامی انتظامیہ کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے ایک فعال کردار ادا کرے۔"

قرہ نے کہا کہ بزنس رولز کی عدم موجودگی نے افسران میں الجھن پیدا کر دی ہے کہ آیا وہ منتخب حکومت کو جوابدہ ہیں یا ایل جی انتظامیہ کو۔ انہوں نے کہا کہ "تذبذب کے اس ماحول میں لوگوں کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہ جمہوری نظام پر اعتماد کھو رہے ہیں۔ لوگوں کو امید تھی کہ ان کے ووٹ سے ان کی شکایات کے ازالے میں مدد ملے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے، اور لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کا ووٹ ضائع ہو گیا۔"

مزید پڑھیں:اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد میں دفعہ 370 کی بحالی کا ذکر نہیں: طارق قرہ

ریاستی کانگریس کمیٹی (پی سی سی) کے سابق صدر اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن وقار رسول نے عمر کی قیادت والی حکومت کو "جموں و کشمیر کی تاریخ کی سب سے ناکام حکومت" قرار دیا۔

جب منتخب حکومت نے اپنے 100 دن مکمل کیے تو وقار نے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ پر شدید حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ "جموں و کشمیر کے لوگوں نے این سی کو ایک مضبوط مینڈیٹ دیا اور امید کی کہ ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس کے بجائے لوگ ناخوش ہیں، انہیں بڑھتے ہوئے مسائل کا سامنا ہے؛ بجلی کی صورت حال بہتر نہیں ہو رہی۔ بجلی کے بلوں میں اضافے سے انہیں کوئی ریلیف نہیں ملا۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو ریگولرائز کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ سوائے تعلیمی سیشن کو تبدیل کرنے کے عمر حکومت کچھ کرنے سے قاصر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ''عمر عبداللہ جانتے تھے کہ ریاستی درجے کے بغیر وہ اپنا چپراسی تک تبدیل نہیں کر سکیں گے۔ جب انہیں یہ معلوم تھا تو انہوں نے الیکشن کیوں لڑا اور ایک یوٹی کے سی ایم بنے۔ این سی اب دوہرے کنٹرول پر الزام لگا رہی ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر ان کے کام میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ الزامات کی اس لڑائی میں تکلیف و پریشانی لوگوں کو ہو رہی ہے۔‘‘

عمر کی زیرقیادت حکومت پر ان تبصروں پر کے لیے جب ای ٹی وی بھارت نے ان سے رابطہ کیا گیا، تو وقار رسول نے بات کرنے سے انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات کے دوران ہی پرانے کیسز سامنے کیوں آتے ہیں؟ کانگریس لیڈر

اگرچہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے لیڈران دونوں پارٹی کے بیچ کسی اختلاف کو خارج کرتے ہیں، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر اس اتحاد کا کوئی وجود نہیں بچا ہے۔

وہیں کانگریس کے چیف ترجمان رویندر شرما پی سی سی کے سابق اور موجودہ صدور کے بیانات کو مسترد کرتے نظر آتے ہیں اور حکمران پارٹی کے ساتھ مفاہمت کا اظہار کرتے ہیں۔

شرما نے کہا کہ کانگریس ایک اتحادی پارٹی کی حیثیت سے چاہتی ہے کہ عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت کامیاب ہو لیکن مرکز کی بی جے پی حکومت جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے سے انکار کر کے ان کے لیے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔

شرما نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "کانگریس قیادت کے بیانات کو نیشنل کانفرنس حکومت کے خلاف نہیں بلکہ بی جے پی حکومت کے خلاف پڑھنا چاہیے۔ مرکز میں بی جے پی ریاست کا درجہ نہ دے کر منتخب حکومت کے لیے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ ہمارے تمام بیانات خطے کے دوہرے کنٹرول اور ریاستی درجہ دینے سے انکار اور بزنس رولز کے نفاذ کے حوالے سے ہیں۔"

نیشنل کانفرنس کے صدر برائے کشمیر صوبہ شوکت میر نے کہا کہ ''کانگریس لیڈر این سی کی قیادت والی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ دوہرے کنٹرول سسٹم اور جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے میں تاخیر کے خلاف بول رہی ہے۔ میر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "دونوں جماعتوں کے ایجنڈے اور پالیسیاں مختلف ہیں، لیکن ریاستی حیثیت اور دیگر اہم مسائل پر کانگریس اور نیشنل کانفرنس ایک ہی صفحے پر ہیں۔"

جموں و کشمیر کی 90 رکنی اسمبلی میں این سی کے پاس 42 قانون ساز ہیں اور پانچ آزاد قانون سازوں اور سی پی آئی ایم کے واحد ایم ایل اے یوسف تاریگامی کی حمایت کے ساتھ اسمبلی میں اس کی تعداد 44 کے اکثریتی نمبر سے زیادہ ہے۔ صرف چھ ایم ایل اے کی چھوٹی تعداد کو دیکھتے ہوئے کانگریس کے پاس نو رکنی کابینہ میں سودے بازی کرنے کے لیے زیادہ نہیں ہے اور امکان ہے کہ اسے ایک سیٹ کی پیش کش کی جائے گی، لیکن پارٹی اپنے اہم رہنماؤں قرہ اور سی ڈبلیو سی کے رکن اور سابق صدر غلام احمد میر کے اندرونی تنازع کی وجہ سے یہ پیشکش لینے سے گریزاں ہے۔

سینئر صحافی اور مصنف ظفر چودھری نے کہا کہ این سی کانگریس کو کسی بھی طرح اہمیت نہیں دیتی ہے کیونکہ اسمبلی میں کانگریس (ارکان اسمبلی) کی تعداد بہت کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اور لڑو آپس میں، عمر عبد اللہ کا دہلی انتخابات میں انڈیا اتحاد کی صورت حال پر چبھتا ہوا طنز

چودھری نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "این سی کے پاس کانگریس کے بغیر بھی اکثریت کا نمبر ہے، اس لیے یہ ایک طرح کا غیر موجود یا نان اسٹارٹر اتحاد معلوم ہوتا ہے۔ پچھلی مخلوط حکومتوں میں شراکت داروں کے درمیان اقتدار کی تقسیم، ڈومین، محکموں یا کابینہ کے فیصلوں پر محاذ آرائی شروع ہو جاتی تھی۔ موجودہ حکمران نظام مکمل طور پر بے اختیار ہے، اس لیے اقتدار اور محکموں کے لیے کوئی کھینچ تان نہیں ہے،‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے دو اہم رہنما طارق قرہ اور غلام احمد میر کابینہ میں شامل ہونا چاہیں گے لیکن این سی نے پارٹی میں صرف ایک جگہ پر اتفاق کیا ہے۔ "اس نے کانگریس کے اندر ایک اندرونی تنازع پیدا کر دیا ہے؛ خاص طور پر میر اور قرہ کے درمیان کیونکہ پارٹی اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں بنا سکی۔ اس لیے حکومت کے ساتھ کسی بھی مسئلے سے زیادہ ان کا اندرونی مسئلہ زیادہ بڑا ہے۔"

ABOUT THE AUTHOR

...view details