غزہ: آج دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس موقع پر ہمیں ان خواتین کو نہیں بھولنا چاہیے جو 4 ماہ سے بدترین اسرائیلی ظلم میں گُھٹ گُھٹ کر زندگی گزانے پر مجبور ہیں۔
7 اکتوبر کے حماس کے حملوں کے جواب میں شروع ہونے والی اسرائیل کی حماس کے خلاف جنگ میں صرف حماس نہیں بلکہ غزہ کے مظلوم بچے اور خواتین بھی بے دردی سے نشانہ بنائے جارہے ہیں جبکہ بین الاقوامی بالخصوص مسلم امہ کی خاموشی کئی سوالات کھڑے کر رہی ہے۔
ان 4 ماہ میں ہم نے فلسطینی خواتین کو کفن میں لپٹے اپنے بچے کے وجود کو سینے سے لگائے دیکھا، ملبے تلے دبے اپنے لختِ جگر کو پکارتے دیکھا، چھوٹی بچیوں کو اپنے والد کے مردہ وجود سے لپٹے روتے بلکتے دیکھا لیکن اس سب کے باوجود ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ غزہ کی باہمت خواتین میں غاصب قوت سے مقابلے کا جذبہ کم ہوا ہو۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق خواتین کے عالمی دن کے موقع پر فلسطینی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے غزہ میں خواتین کی حالت زار کے حوالے سے بتایا کہ ’60 ہزار حاملہ فلسطینی خواتین صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ وہ پینے کے صاف پانی اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔
غزہ میں ہر ماہ تقریباً 5 ہزار خواتین بچوں کو جنم دے رہی ہیں اور وہ جن ماحول میں بچوں کو جنم دینے میں مجبور ہیں وہ انتہائی غیرمحفوظ اور کسی صورت صحت بخش نہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی خواتین کے قتل عام میں ’بین الاقوامی برادری کی خاموشی بھی حصہ دار ہے‘۔
انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ ’اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کو فوری طور پر روکے‘ اور ’غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے خواتین کی بین الاقوامی تنظیموں سے اپنی کوششوں کو متحرک کرنے‘ پر زور دیا۔
اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی افواج کے ظلم سے اب تک 9 ہزار خواتین جاں بحق ہوچکی ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد ملبے تلے دبی ہے جس سے جاں بحق خواتین کی تعداد زیادہ ہونے کا امکان موجود ہے۔
رپورٹ میں لگائے گئے ایک اندازے کے مطابق فلسطین میں روزانہ 37 فلسطینی مائیں جاں بحق ہوتی ہیں جس سے ان کے خاندان تباہ اور ان کے بچے بےسہارا ہو جاتے ہیں۔
غزہ میں تقریباً 7 لاکھ خواتین اور لڑکیوں کو سینیٹری پیڈ، بیت الخلا اور صاف پانی تک آسان رسائی میسر نہیں۔ فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی انروا کے زیرِ انتظام پناہ گاہوں میں اوسطاً 486 افراد کے لیے صرف ایک بیت الخلا موجود ہے۔
رپورٹ میں مزید سامنے آیا کہ 5 میں سے 4 فلسطینی خواتین (یعنی 84 فیصد) نے بتایا کہ ان کا خاندان کے افراد جنگ شروع ہونے سے پہلے جو کھانا کھاتے تھے اب وہ اس سے آدھا یا اس سے کم کھانا کھاتے ہیں۔ خواتین جو عموماً کھانا بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہیں لیکن انہیں سب سے آخر میں سب سے کم کھانا ملتا ہے۔
ہر 10 میں سے تقریباً 9 خواتین (87 فیصد) نے بتایا کہ مردوں کے مقابلے میں انہیں خوراک تک رسائی میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ سخت حالات کے باعث خواتین اب ملبے یا کوڑے کے ڈھیروں میں کھانا تلاش کرنے پر مجبور ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔
غزہ میں ہر 5 میں سے 4 خواتین (84 فیصد) بتاتی ہیں کہ ان کے خاندان کے کم از کم ایک فرد کو گزشتہ ہفتے کے دوران کھانا ترک کرنا پڑا۔ ان میں 95 فیصد مائیں ہیں جو اپنے بچوں کے لیے خود کھانا چھوڑ دیتی ہیں۔ غزہ جوکہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے، آئندہ دنوں میں مجموعی آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
جبکہ رضاکاروں سے یہ اطلاعات تک موصول ہورہی ہیں کہ درد کش اور بے ہوش کرنے والی ادویات کے بغیر خواتین کا سیزرین کیا جارہا ہے۔ غزہ میں خواتین کی بڑی تعداد ماہواری میں تاخیر کے لیے ادویات کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں جبکہ اسرائیلی جیل میں قید فلسطینی خواتین قیدیوں کی بڑی تعداد کو اسرائیلی افواج جنسی استحصال کا نشانہ بنا رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ ایسے بے شمار واقعات سامنے آئے ہیں جہاں ’زیرِحراست فلسطینی خواتین اور بچیوں کو مختلف اقسام کے جنسی استحصال‘ کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ مرد اسرائیلی افسران خواتین کو برہنہ کرکے ان کی تلاشی لیتے ہیں۔ کم از کم دو فلسطینی خواتین قیدیوں کا مبینہ طور پر ریپ کیا گیا جبکہ دیگر کو مبینہ طور پر ریپ اور جنسی تشدد کی دھمکیاں دی گئیں۔ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینی خواتین کی ’توہین آمیز حالات‘ میں تصاویر بھی آن لائن پوسٹ کی گئی ہیں۔
آئیے آج کا دن غزہ کی ان خواتین کے نام کرتے ہیں جو اسرائیلی ظلم و سفاکیت کی حقیقی مظلوم ہیں، جو بدترین انسانی المیے کا شکار ہیں اور جو اپنے خاندان کو کھو کر بھی خندہ پیشانی سے اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کا بہادری سے مقابلہ کررہی ہیں۔ (یو این آئی)