نئی دہلی: ہندوستان میں ملازمین کے اوقات کار (ورکنگ آور) کو لے کر بحث جاری ہے۔ ایک کے بعد ایک ملک کے بڑے صنعتکار اس معاملے پر اپنی رائے دے رہے ہیں۔ جہاں انفوسس کے سربراہ نارائن مورتی نے نوجوانوں کو ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کا مشورہ دیا ہے، وہیں لارسن اینڈ ٹوبرو کمپنی کے سربراہ شیکھری پورم نارائنن سبرامنیم نے بھی ہفتے میں 90 گھنٹے کام کرنے کی وکالت کی ہے۔
تاہم بعض صنعتکاروں نے اس پر تنقید کی ہے۔ ان میں گوتم اڈانی، ادار پونا والا اور آنند مہندرا کے نام شامل ہیں۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے سی ای او آدر پونا والا نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں کہا کہ میری اہلیہ این پونا والا سوچتی ہیں کہ میں شاندار ہوں، وہ اتوار کو مجھے گھورنا پسند کرتی ہیں۔ ادار پونا والا کا ماننا ہے کہ، معیاری کام ہمیشہ مقدار سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔
اس سے پہلے گوتم اڈانی نے کہا تھا کہ اگر آپ کو اپنا کام پسند ہے تو آپ کا ورک لائف بیلنس خود بخود بن جاتا ہے۔ آپ کے ورک لائف بیلنس کو مجھ پر مسلط نہیں کیا جانا چاہئے اور میرا آپ پر مسلط نہیں کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح آنند مہندرا نے کہا کہ وہ معیار پر توجہ دیتے ہیں۔ کام کے اوقات پر نہیں۔
ملک بھر میں اوقات کار پر جاری بحث کے درمیان ہم آپ کو 10 ایسے ممالک کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جہاں ملازمین سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایشیا کے ممالک بھی ان میں شامل ہیں جبکہ بھارت کا پڑوسی ملک اس معاملے میں سرفہرست ہے۔
وہ 10 ممالک جہاں ورکنگ آور زیادہ ہیں:
1- بھوٹان:
صرف سات لاکھ کی آبادی کے باوجود بھوٹان کے لوگ دنیا میں سب سے زیادہ ورکنگ آور گزارتے ہیں۔ کام کے اوقات کے لحاظ سے بھوٹان سرفہرست ہے۔ یہاں ملازمین ہر ہفتے تقریباً 54.4 گھنٹے کام کرتے ہیں۔
2- متحدہ عرب امارات:
اس فہرست میں اگلے نمبر پر متحدہ عرب امارات ہے، جہاں ملازمین اپنی معیشت کو چلانے کے لیے ہفتے میں 50.9 گھنٹے کام کرتے ہیں۔
3- لیسوتھو:
لیسوتھو میں لوگ 50.4 گھنٹے فی ہفتہ کام کرتے ہیں، یہ دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں ہر ہفتے کام کے اوقات سب سے زیادہ ہیں۔
4- کانگو:
چوتھے نمبر پر کانگو ہے، جہاں ملازمین ہفتے میں 48.6 گھنٹے کام کرتے ہیں۔
5- قطر: