نئی دہلی: شمبھو بارڈر پر 101 کسانوں کا ایک گروپ دہلی کی طرف مارچ کرنے نکلا، لیکن ہریانہ پولیس نے انہیں روک دیا۔ یہ کسان بغیر ٹریکٹر ٹرالی کے پیدل جا رہے تھے۔ دو بیریگیٹ عبور کرنے کے بعد آگے بڑھنے والے کسانوں کو پولس نے پل پر روک دیا۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا ہے، ساتھ ہی واٹر کینن اور آنسو گیس کے ہتھیار بھی تیار ہیں۔
ایم ایس پی کی قانونی ضمانت کا مطالبہ:
کسانوں کی یہ تحریک اب اپنے 297ویں دن میں داخل ہو گئی ہے، جب کہ کھنوری سرحد پر غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال بھی 11ویں دن میں ہے۔ اس طویل جدوجہد کے درمیان کسان مرکزی حکومت کے ساتھ مختلف مطالبات پر بات چیت کرنے کے لیے پرعزم ہیں، جس میں کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی ضمانت کا مطالبہ خاص طور پر اہم ہے۔
34 کسان حراست میں:
پولیس کی طرف سے اٹھائے گئے حفاظتی اقدامات کے تناظر میں، حکام نے جمعرات کو کہا کہ نوئیڈا میں بغیر اجازت احتجاج کرنے پر 34 کسانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ کسان زیرو پوائنٹ سے قومی دلت انسپائریشن سائٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ حراست میں لینے کے بعد انہیں جیل بھیج دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اتر پردیش حکومت نے صورتحال پر قابو پانے اور کسانوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی کی سربراہی آئی اے ایس انیل کمار ساگر کریں گے جو ریاست میں انفراسٹرکچر اور صنعتی ترقی کے سکریٹری ہیں۔ اس کمیٹی میں مزید ماہرین کو شامل کیا گیا ہے جو اس معاملے کو موثر انداز میں نمٹانے میں مدد کریں گے۔
توقع ہے کہ کمیٹی ایک ماہ میں اپنی رپورٹ اور سفارشات حکومت کو پیش کرے گی۔ حال ہی میں 3 دسمبر کو اتر پردیش پولیس نے احتجاج کرنے والے کسانوں کو بھی حراست میں لیا تھا، جو اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ کسانوں کی تحریک صرف ایک مقامی تنازعہ ہی نہیں بلکہ ایک وسیع تر قومی مسئلہ بن چکی ہے، جو حکومت اور کسانوں کے درمیان تعلقات کو نئے سرے سے متعین کر رہی ہے۔