نئی دہلی : جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں این آئی اے – اے ٹی ایس عدالت کے حالیہ فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مولانا کلیم صدیقی، مولانا عمر گوتم اور دیگر 12 افراد کو جبراً مذہب تبدیل کرانے کے معاملے میں نچلی عدالت کی جانب سے قصوروار قرار دینا سخت تشویش کا باعث ہے۔ انہیں تعزیرات ہند کی دفعات 417، 120بی، 153 اے، 153بی، 195اے، 121اے، 123 اور غیر قانونی مذہب تبدیلی ایکٹ (سیکشن3،4 اور 5) کے تحت قصوروار ٹھہرایا گیا اور عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ عدالت کی جانب سے وضع کردہ ان سنگین الزامات سے اتفاق ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں کوئی کسی کو مذہب تبدیل کرنے پر کیسے مجبور کرسکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ اسلام کی تعلیمات میں بھی مذہب کی تبدیلی کے لیے جبر قطعاً ممنوع ہے۔ ہر فرد کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل کرنےاور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہمارے آئین نے دیا ہے۔ کوئی اتھارٹی کسی شہری کو اس کے اس حق سے محروم نہیں کرسکتی۔ ان پر دہشت گردی، مجرمانہ سازش، فرقہ وارانہ عداوت کو فروغ دینا اور ریاست کے خلاف جرائم کی سازش جیسے سنگین الزمات نہ صرف بے بنیاد ہیں بلکہ ایک بڑی خطرناک نظیر قائم کرتے ہیں۔ اس طرح کے الزامات سے عدل و انصاف اور جمہوری قدروں کے ان اصولوں کو نقصان پہنچتا ہے جن کی ضمانت ہمارے آئین میں دی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پورا کیس اُن اقلیتی برادریوں کو ایک خاص طرح کا پیغام دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے جو بغیر کسی ڈر یا دباؤ کے آئین میں دی گئی مذہب پر عمل اور اس کی تبلیغ کے حق کا بغیر کسی خوف اور جبر کے استعمال کرتے ہیں۔