منڈیا:کرناٹک کے منڈیا ضلع کے ناگ منگلا میں گذشتہ رات کو گنیش وسرجن کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ایک مسجد کے بغل سے گنیش وسرجن کا جلوس نکالنے کے دوران تشدد شروع ہو گیا جس کے بعد شرپسند عناصر نے متعدد دکانوں اور شو رومز اور گاڑیوں کو آگ کے حوالے کر دیا۔ شرپسندوں نے پینٹ شاپس، بائیک شو رومز اور کپڑوں کی دکانوں سمیت متعدد املاک میں آگ لگا دی جس سے وہ مکمل طور پر خاکستر ہو گئیں۔
دفعہ 144 نافذ
سینئر پولیس حکام نے بتایا کہ فی الوقت پورے علاقے میں حالات کشیدہ ہیں لیکن قابو میں ہیں۔ پولیس نے تشدد زدہ علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ خطے میں بڑی تعداد میں پولیس فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ لوگوں کے اکٹھے ہونے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
آئی جی پی نے اس تعلق سے ایک بیان میں کہا کہ "گنیش وسرجن کے جلوس کے دوران پتھراؤ کیا گیا۔ کچھ دکانوں اور بائیکوں کو آگ لگا دی گئی۔ دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ ہم نے ہر جگہ پولیس فورس تعینات کر دی ہے۔ حالات قابو میں ہیں۔ ہم نے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ ہم نے کچھ لوگوں کو حراست میں لیا ہے اور تفتیش کر رہے ہیں۔''
ایس پی کا بیان
علاقے کے ایس پی نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ "مسجد کے سامنے کافی دیر تک گنیش وسرجن کے جلوس کے کھڑے ہونے کی وجہ سے دونوں برادریوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ اس وقت پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ بعد میں دونوں فرقوں کے گروپوں نے پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کیا۔ اس دوران شرپسند عناصر نے کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ دکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی۔''
تشدد شروع ہونے کی وجہ
ناگ منگلا کے بدری کوپل میں گنیش کی مورتی نصب کی گئی تھی۔ کل رات کو انیاکومی مندر کے قریب مورتی وسرجن کے لیے جلوس نکل رہا تھا۔ مگر اس جلوس کو ایک مسجد کے بغل سے گزارا گیا۔ اس دوران اس جلوس کے مسجد کے کافی دیر تک روک کر کھڑا رکھا گیا جس کی وجہ سے جھگڑا شروع ہوا اور پھر پتھراؤ کی وجہ سے یہ جلوس فرقہ وارانہ تشدد کی شکل اختار کر گیا۔
دونوں فرقے کے لوگوں نے تشدد کے لیے ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرایا ہے اور ایک دوسرے پر پتھراؤ کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ پتھراؤ پہلے کس طرف سے شروع ہوا یا پھر متنازع نعرے بازی کے بعد پتھراؤ شروع ہوا۔ تاحال یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پچھلے سال بھی تشدد کے واقعات
ناگ منگلا میں گنیش فیسٹول کے دوران کشیدگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پچھلے سال بھی جلوس کے دوران پتھراؤ کی وجہ سے حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں پولیس نے مناسب اقدامات کرتے ہوئے حالات کو قابو میں کیا۔