ETV Bharat / sukhibhava

Holi of Mughal Emperors آج کے 'بدنام' مغل کل ہولی کھیلنے کیلئے مشہور تھے

author img

By

Published : Mar 3, 2023, 9:20 AM IST

Updated : Mar 3, 2023, 12:40 PM IST

مغل دربار کی ہولی ایک انوکھی مثال ہے۔ دربار میں ہولی کا تہوار خوب دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ شہنشاہ اکبر سے لیکر ہمایوں، جہانگیر، شاہ جہاں، بہادر شاہ ظفر تک سبھی کو ہولی میں دلچسپی تھی۔ تاریخ میں کو جودھا بائی، اکبر، جہانگیر اور نورجہاں کے ہولی کھیلنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ Unique Holi of the Mughal Emperors

آج کے 'بدنام' مغل کل ہولی کھیلنے کیلئے مشہور تھے
آج کے 'بدنام' مغل کل ہولی کھیلنے کیلئے مشہور تھے

حیدرآباد: ہندو مذہب میں ہولی کے تہوار کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس تہوار کو پورے بھارت میں منایا جاتا ہے، ہولی ایک قدیم تہوار ہے۔ اس میں لوگ اپنے درمیان کے اختلافات کو مٹا کر ایک دوسرے کو دل کھول کر رنگ لگاتے ہیں۔ بعض کتابوں کے مطابق ہولی کا تہوار بھگوان کرشن کے وقت سے بھی پہلے سے منایا جاتا ہے۔ جب کہ دیگر کتابوں کے ذریعے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ 'بھگوان کرشن اپنی گوپیوں کے ساتھ ہولی کھیلا کرتے تھے۔ اس لیے آج متھرا-ورنداون اور بنارس کی ہولی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ آپ کو یہ بھی جان کر حیرت ہوگی کہ مغل دربار میں بھی ہولی کا تہوار خوب دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ مغل حکمراں ذات پات سے پرے ایک دوسرے کو رنگ لگاتے تھے۔ مغل ہولی کے تہوار کو عید گلابی اور آب پلاشی کہتے تھے۔ ہولی کا تہوار ہمیشہ سے بھارتی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔

شہنشاہ اکبر سے لیکر ہمایوں، جہانگیر، شاہ جہاں، بہادر شاہ ظفر تک سبھی کو ہولی میں بہت دلچسپی تھی۔ تاریخ میں جودھا بائی، اکبر، جہانگیر اور نورجہاں کے ہولی کھیلنے کا ذکر ملتا ہے۔ جہانگیر کی کتاب 'تزک جہانگیری' میں بھی ہولی کے حوالے سے کئی باتیں لکھی گئی ہے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو ہولی اس قدر پسند تھی کہ انہوں نے ہولی پر ایک نغمہ بھی لکھ ڈالا تھا۔

اسی طرح آئین اکبری میں ابوالفضل لکھتے ہیں کہ 'شہنشاہ اکبر کو ہولی کھیلنے کا اتنا شوق تھا کہ وہ سال بھر کچھ ایسی چیزیں اکٹھا کرتے تھے، تاکہ ہولی کے روز رنگوں کا چھڑکاؤ دور تک کیا جاسکے۔ اکبر ہولی کے روز اپنے قلعے سے باہر نکلتے تھے اور اپنے عوام کے ساتھ خوب ہولی کھیلا کرتے تھے۔

وہیں تزک جہانگیری میں جہانگیر کی ہولی کے حوالے سے کئی بات واضح ہوتی ہے۔ نغمہ و موسیقی کے قدردان جہانگیر ہولی کے روز قلعے میں موسیقی کی محفلیں سجواتے تھے، جس میں سب کو شامل ہونے کی اجازت تھی، تاہم وہ لوگوں کے ساتھ ہولی کھیلنے نہیں نکلتے تھے بلکہ لال قلعہ کی کھڑکی سے رعایا کو ہولی کھیلتے ہوئے دیکھتے تھے۔ ان کے دور میں ہولی کو عید گلابی (رنگوں کا تہوار) اور آب پلاشی (پانی کی بارش کا تہوار) کا نام دیا گیا تھا۔

شاہجہاں کے دور میں بھی ہولی منائی جاتی تھی، جہاں آج راج گھاٹ ہے۔ ہولی کے روز شاہجہاں اپنے رعایا کے ساتھ وہاں رنگ کھیلنے جاتے تھے۔ تاہم بہادر شاہ ظفر نے تو ہولی کو لال قلعہ کا شاہی تہوار ہی بنا دیا تھا۔ ظفر نے ہولی پر کئی گیت بھی لکھے ہیں، جنہیں ہوری کا نام دیا گیا ہے، بادشاہ ظفر کا لکھا ہوا ہوری گیت یعنی پھاگ آج بھی ہولی پر لوگ گاتے ہیں۔ وہ کچھ اس طرح سے ہیں، 'کیوں مو پے رنگ کی ماری پچکاری، دیکھو کنورجی دونگی میں گاری'۔

لکھنؤ کی ہولی بھی دہلی کی ہولی سے کچھ کم نہیں تھی

کہتے ہیں کہ 'لکھنؤ شہر کی ہولی بھی دہلی کی ہولی سے کچھ کم رنگین نہیں تھی۔ وہاں کے حکمراں نواب سعادت علی خان اور آصف الدولہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہولی کے دن کی تیاریوں میں کروڑوں روپے خرچ کر دیتے تھے۔ اس دن نواب موسیقی کی محفلیں سجواتے تھے اور محفل میں رقص کرنے والی لڑکیوں پر سونے کے سکے اور قیمتی جواہرات کی بارش کرتے تھے۔ مشہور شاعر میر تقی میر (1723-1810) نے نواب آصف الدولہ کے ہولی کھیلنے کے حوالے سے ایک ہوری گیت لکھا تھا جو اس زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا۔
مغل حکمرانوں کے دور میں ہولی کے لیے مختلف طریقے سے رنگ تیار کیے جاتے تھے۔ اس کے لیے سرخ پھول مہینوں پہلے سے جمع کیے جاتے تھے اور انہیں رنگ میں تبدیل کرکے گھڑے یا برتنوں میں بھرا جاتا تھا۔ جبکہ جہاں رانیاں رہتی تھیں وہاں موجود ٹب میں پھولوں سے بنا رنگ یا گلاب سے بنا رنگ بھرا جاتا۔ مغل دربار میں ہولی کا جشن صبح سے ہی شروع ہو جاتا تھا۔

محلوں میں ہولی کا الگ انتظام ہوتا تھا

شہنشاہ پہلے اپنی رانیوں کے ساتھ ہولی کھیلا کرتے تھے اور پھر رعایا کے ساتھ رنگ کا مزہ لیتے تھے۔ محلوں میں ہولی پر ایک اور انتظام کیا جاتا تھا۔ یہاں ایک خاص جگہ پر بادشاہ اور رعایا دونوں جمع ہوتے تھے اور وہاں عطر اور کیوڑا کے فوارے چلائے جاتے تھے۔ اس طرح سے مغل دربار میں ہولی بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔

کتابوں میں صوفی بزرگوں کے درمیان بھی ہولی کھیلنے کا تذکرہ ملتا ہے

مشہور شاعر امیر خسرو کو ہولی کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ وہ گلاب کے پانی اور پھولوں سے ہولی کھیلتے تھے۔ خسرو نے رنگوں کے اس تہوار پر بہت سے صوفیانہ گیت لکھے ہیں۔ ان میں سے ایک گیت یہ ہے، آج رنگ ہے ری، آج رنگ ہے، میرے خواجہ کے گھر آج رنگ ہے، اس گیت کو آج بھی نہ صرف ہولی بلکہ عام موقع پر بھی سنا جاتا ہے۔ مسلم صوفی شاعروں نے اسے عید گلابی کا نام دیا۔ ہولی کے موقع پر بیشتر صوفی خانقاہوں میں رنگ کھیلے جاتے ہیں۔ صوفی بزرگ نظام الدین اولیاء جنہیں تاریخ کا پہلا سیکولر صوفی کہا جاتا ہے انہوں نے سب سے پہلے اپنی خانقاہ میں ہولی کا جشن منایا تھا۔ تب سے یہ صوفی بزرگوں کا پسندیدہ تہوار رہا ہے۔ آج بھی ہولی صوفی ثقافت کا ایک حصہ ہے اور ہر سالانہ عرس کے آخری دن خانقاہ میں 'رنگ' کا تہوار منایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:

انگریزوں کے زمانے میں بھی ہولی منائی جاتی تھی

برطانوی راج کے دوران بھی بھارتی لوگ ہولی مناتے تھے اور ان پر ہولی کھیلنے کے حوالے سے حکومت کی طرف سے کوئی سخت اصول و ضوابط نہیں تھے۔ انگریزوں کے خلاف لڑائی کو دھاردار بنانے میں بھی ہولی کا اہم کردار رہا ہے۔ اتر پردیش میں 1857 کے انقلاب کے دوران ہولی کے دن میلے کا اہتمام کیا گیا اور تمام مذاہب کو متحد کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

حیدرآباد: ہندو مذہب میں ہولی کے تہوار کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس تہوار کو پورے بھارت میں منایا جاتا ہے، ہولی ایک قدیم تہوار ہے۔ اس میں لوگ اپنے درمیان کے اختلافات کو مٹا کر ایک دوسرے کو دل کھول کر رنگ لگاتے ہیں۔ بعض کتابوں کے مطابق ہولی کا تہوار بھگوان کرشن کے وقت سے بھی پہلے سے منایا جاتا ہے۔ جب کہ دیگر کتابوں کے ذریعے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ 'بھگوان کرشن اپنی گوپیوں کے ساتھ ہولی کھیلا کرتے تھے۔ اس لیے آج متھرا-ورنداون اور بنارس کی ہولی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ آپ کو یہ بھی جان کر حیرت ہوگی کہ مغل دربار میں بھی ہولی کا تہوار خوب دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ مغل حکمراں ذات پات سے پرے ایک دوسرے کو رنگ لگاتے تھے۔ مغل ہولی کے تہوار کو عید گلابی اور آب پلاشی کہتے تھے۔ ہولی کا تہوار ہمیشہ سے بھارتی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔

شہنشاہ اکبر سے لیکر ہمایوں، جہانگیر، شاہ جہاں، بہادر شاہ ظفر تک سبھی کو ہولی میں بہت دلچسپی تھی۔ تاریخ میں جودھا بائی، اکبر، جہانگیر اور نورجہاں کے ہولی کھیلنے کا ذکر ملتا ہے۔ جہانگیر کی کتاب 'تزک جہانگیری' میں بھی ہولی کے حوالے سے کئی باتیں لکھی گئی ہے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو ہولی اس قدر پسند تھی کہ انہوں نے ہولی پر ایک نغمہ بھی لکھ ڈالا تھا۔

اسی طرح آئین اکبری میں ابوالفضل لکھتے ہیں کہ 'شہنشاہ اکبر کو ہولی کھیلنے کا اتنا شوق تھا کہ وہ سال بھر کچھ ایسی چیزیں اکٹھا کرتے تھے، تاکہ ہولی کے روز رنگوں کا چھڑکاؤ دور تک کیا جاسکے۔ اکبر ہولی کے روز اپنے قلعے سے باہر نکلتے تھے اور اپنے عوام کے ساتھ خوب ہولی کھیلا کرتے تھے۔

وہیں تزک جہانگیری میں جہانگیر کی ہولی کے حوالے سے کئی بات واضح ہوتی ہے۔ نغمہ و موسیقی کے قدردان جہانگیر ہولی کے روز قلعے میں موسیقی کی محفلیں سجواتے تھے، جس میں سب کو شامل ہونے کی اجازت تھی، تاہم وہ لوگوں کے ساتھ ہولی کھیلنے نہیں نکلتے تھے بلکہ لال قلعہ کی کھڑکی سے رعایا کو ہولی کھیلتے ہوئے دیکھتے تھے۔ ان کے دور میں ہولی کو عید گلابی (رنگوں کا تہوار) اور آب پلاشی (پانی کی بارش کا تہوار) کا نام دیا گیا تھا۔

شاہجہاں کے دور میں بھی ہولی منائی جاتی تھی، جہاں آج راج گھاٹ ہے۔ ہولی کے روز شاہجہاں اپنے رعایا کے ساتھ وہاں رنگ کھیلنے جاتے تھے۔ تاہم بہادر شاہ ظفر نے تو ہولی کو لال قلعہ کا شاہی تہوار ہی بنا دیا تھا۔ ظفر نے ہولی پر کئی گیت بھی لکھے ہیں، جنہیں ہوری کا نام دیا گیا ہے، بادشاہ ظفر کا لکھا ہوا ہوری گیت یعنی پھاگ آج بھی ہولی پر لوگ گاتے ہیں۔ وہ کچھ اس طرح سے ہیں، 'کیوں مو پے رنگ کی ماری پچکاری، دیکھو کنورجی دونگی میں گاری'۔

لکھنؤ کی ہولی بھی دہلی کی ہولی سے کچھ کم نہیں تھی

کہتے ہیں کہ 'لکھنؤ شہر کی ہولی بھی دہلی کی ہولی سے کچھ کم رنگین نہیں تھی۔ وہاں کے حکمراں نواب سعادت علی خان اور آصف الدولہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہولی کے دن کی تیاریوں میں کروڑوں روپے خرچ کر دیتے تھے۔ اس دن نواب موسیقی کی محفلیں سجواتے تھے اور محفل میں رقص کرنے والی لڑکیوں پر سونے کے سکے اور قیمتی جواہرات کی بارش کرتے تھے۔ مشہور شاعر میر تقی میر (1723-1810) نے نواب آصف الدولہ کے ہولی کھیلنے کے حوالے سے ایک ہوری گیت لکھا تھا جو اس زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا۔
مغل حکمرانوں کے دور میں ہولی کے لیے مختلف طریقے سے رنگ تیار کیے جاتے تھے۔ اس کے لیے سرخ پھول مہینوں پہلے سے جمع کیے جاتے تھے اور انہیں رنگ میں تبدیل کرکے گھڑے یا برتنوں میں بھرا جاتا تھا۔ جبکہ جہاں رانیاں رہتی تھیں وہاں موجود ٹب میں پھولوں سے بنا رنگ یا گلاب سے بنا رنگ بھرا جاتا۔ مغل دربار میں ہولی کا جشن صبح سے ہی شروع ہو جاتا تھا۔

محلوں میں ہولی کا الگ انتظام ہوتا تھا

شہنشاہ پہلے اپنی رانیوں کے ساتھ ہولی کھیلا کرتے تھے اور پھر رعایا کے ساتھ رنگ کا مزہ لیتے تھے۔ محلوں میں ہولی پر ایک اور انتظام کیا جاتا تھا۔ یہاں ایک خاص جگہ پر بادشاہ اور رعایا دونوں جمع ہوتے تھے اور وہاں عطر اور کیوڑا کے فوارے چلائے جاتے تھے۔ اس طرح سے مغل دربار میں ہولی بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔

کتابوں میں صوفی بزرگوں کے درمیان بھی ہولی کھیلنے کا تذکرہ ملتا ہے

مشہور شاعر امیر خسرو کو ہولی کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ وہ گلاب کے پانی اور پھولوں سے ہولی کھیلتے تھے۔ خسرو نے رنگوں کے اس تہوار پر بہت سے صوفیانہ گیت لکھے ہیں۔ ان میں سے ایک گیت یہ ہے، آج رنگ ہے ری، آج رنگ ہے، میرے خواجہ کے گھر آج رنگ ہے، اس گیت کو آج بھی نہ صرف ہولی بلکہ عام موقع پر بھی سنا جاتا ہے۔ مسلم صوفی شاعروں نے اسے عید گلابی کا نام دیا۔ ہولی کے موقع پر بیشتر صوفی خانقاہوں میں رنگ کھیلے جاتے ہیں۔ صوفی بزرگ نظام الدین اولیاء جنہیں تاریخ کا پہلا سیکولر صوفی کہا جاتا ہے انہوں نے سب سے پہلے اپنی خانقاہ میں ہولی کا جشن منایا تھا۔ تب سے یہ صوفی بزرگوں کا پسندیدہ تہوار رہا ہے۔ آج بھی ہولی صوفی ثقافت کا ایک حصہ ہے اور ہر سالانہ عرس کے آخری دن خانقاہ میں 'رنگ' کا تہوار منایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:

انگریزوں کے زمانے میں بھی ہولی منائی جاتی تھی

برطانوی راج کے دوران بھی بھارتی لوگ ہولی مناتے تھے اور ان پر ہولی کھیلنے کے حوالے سے حکومت کی طرف سے کوئی سخت اصول و ضوابط نہیں تھے۔ انگریزوں کے خلاف لڑائی کو دھاردار بنانے میں بھی ہولی کا اہم کردار رہا ہے۔ اتر پردیش میں 1857 کے انقلاب کے دوران ہولی کے دن میلے کا اہتمام کیا گیا اور تمام مذاہب کو متحد کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

Last Updated : Mar 3, 2023, 12:40 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.