ہمیں اناج کھیتوں سے ملتا ہے اور گوشت جانوروں سے، لیکن آج کی جدید سائنس کی دنیا میں گوشت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لیبارٹری میں گوشت تیار کیا جارہا ہے۔ اب جانوروں کے گوشت کے بجائے لیب سے تیار شدہ مصنوعی گوشت کی خریداری میں بھی دن بدن دلچسپی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ What is Cultivated Meet
دنیا میں گوشت خوری کا بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ طریقہ بالکل ایک سائنس فکشن فلم کی طرح ہے۔ ہمارے پلیٹ تک گوشت پہنچانے کے لیے بہت سی کمپنیاں لیبارٹری میں اس طریقہ پر کام کر رہی ہے تاکہ یہ اصلی گوشت سے بہتر اور اس سے زیادہ ذائقہ دار ہوسکے۔ وہیں کچھ کمپنیاں مصنوعی گوشت کو پہلے ہی فروخت کرنے کے لیے پیش کرچکی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں یہ گوشت کیسے بنایا جاتا ہے جس کے لیے جانور کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
یہ قسم کا مصنوعی گوشت ہے لیکن یہ مکمل طور پر مصنوعی بھی نہیں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کو مختلف نام بھی دئیے گئے ہیں۔ ابتدائی طور پر اسے 'ویٹ میٹ ' کے نام سے موسوم کیا گیا۔ لیکن لوگوں نے اس نام کو پسند نہیں کیا پھر اسے ' لیب میٹ' کا نام دیا گیا اور یہ نام گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب بھی ہوا۔ لیکن بعد میں اسے 'کلچرڈ میٹ' یا 'کلٹیویٹیڈ میٹ' کا نام دیا گیا۔ اس طرح سے گوشت تیار کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جانوروں کو ذبح کیے بغیر لیبارٹری میں گوشت تیار کیا جائے۔
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ونسٹن چرچچیل نے اپنی کتاب' تھاٹس اینڈ ایڈونچر' میں اس طرح کے گوشت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ' ہم مرغی کے بریسٹ اور ونگز کھانے کے لیے پوری مرغی کو کیوں بڑا کرتے ہیں'۔ یقینا سائنس نے آج اتنی ترقی کرلی ہے کہ ہم فصلوں کی طرح گوشت کو بھی لیبارٹری میں اگا کر کھاسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مستقبل میں غذائی تحفظ ایک اہم موضوع ہوگا اور مویشی پالنا ماحولیاتی تبدیلی کے لیے سب زیادہ ذمہ دار ہوگا، ایسے میں 'کلٹیویٹیڈ میٹ' کو مستقبل میں کھائے جانے والے خوراک کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ کیسے بنتا ہے؟
اسے اگر کم لفظوں میں سمجھائیں تو اس کے بننے کا عمل 'ٹیسٹ ٹیوب سے بائیو ریکٹر تک ہی ہے'۔ اس کو بنانے کے لیے جانوروں کے خلیے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بائیوپسی طریقے کے ذریعہ خلیے کو جمع کیا جاتا ہے پھر اسے گرم اور صاف کنٹینر میں رکھا جاتا ہے۔ اس برتن میں ایک محلول ہوتا ہے جس میں نمکیات، پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ ہوتا ہے جو خلیے کی نشوونما کے لیے ضرورت ہوتی ہے، ان کی مدد سے خلیے تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے بائیو ریکٹر میں چکن نگٹس کو بنانے میں دو دن لگتے ہیں۔ ہر خلیہ 24 گھنٹے میں دوگنا بڑھ جاتا ہے۔
کیا یہ سچ میں گوشت جیسا ہوتا ہے؟
لیبارٹری میں خلیات سے گوشت کے ٹکڑوں کے علاوہ کچھ اور نہیں تیار کیا جاسکتا نہ ہی جلد، نہ ہڈیاں اور نہ چربی۔ خلیوں کو چربی کے خلیات بننے کے لیے مختلف حالات اور مختلف غذائی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا چربی کے خلیات کو الگ سے بڑھانا پڑتا ہے۔ لیبارٹری میں تیار کیے گئے گوشت اور چربی کی کوئی شکل نہیں ہوتی ہے، وہ صرف بہت سارے خلیوں کا ایک گچھا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے لیبارٹری کے گوشت کو برگر یا چکن نگٹس کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن ان کا ذائقہ گوشت جیسا ہ ہوتا ہے۔ صاف ستھرا ماحول میں تیار کیے جانے سے ان گوشت میں بیماری اور کیمیائی آلودگی کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ روایتی گوشت کے مقابلے میں یہ زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ جب جانوروں کو ذبح کرکے زمین پر چھوڑ دیا جاتا ہے تب سالمونیلا، ای کولائی جیسے بیکٹریا اور جانوروں کے فضلے میں پیدا ہوئے بیکٹریا سے بیمار ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت صحتیابی کی طرف ایک اچھا قدم ہے۔
اس میں کون سے غذائی اجزاء موجود ہوتے ہیں؟
غذائی اجزاء کے لحاظ سے کلٹیویٹیڈ گوشت کا وزن جانوروں کے گوشت کے برابر ہوتا ہے۔ اگر چاہیں تو غذائی اجزاء کی مقدار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اسے فرد کی صحت اور ضروریات کے مطابق بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ انسان میں چربی اور کولیسٹرول کو کم کر سکتا ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ وٹامنز اور صحت مند چکنائی کی مقدار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر - فرض کریں کہ آپ سالمن میں پائے جانے والے فیٹی ایسڈ سے یہ گوشت تیار کرتے ہیں، تو یہ دل کی صحت کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ فی الحال، کلٹیویٹیڈ گوشت کے اجزاء کے پیکٹوں پر غذائی اجزاء کی زیادہ تفصیل موجود نہیں ہے۔ اگر یہ مستقبل میں وسیع پیمانے پر دستیاب ہو جائیں تو ان کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا۔
کیا یہ ماحول کے لیے اچھا ہے؟
جب تک کلٹیویٹیڈ گوشت بڑے پیمانے پر تیار نہیں ہوتا، اس کے نتائج غیر یقینی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ مویشیوں اور مرغیوں کی پرورش کے مقابلے میں لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے گوشت سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن پر یہ منحصر کرتا ہے۔ صاف ایندھن سے پیدا ہونے والی بجلی اتنی زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج نہیں کر سکتی ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ مستقبل میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس میں گوشت کی روایتی مصنوعات کے ایک پائیدار متبادل کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ماسٹرچٹ یونیورسٹی کے پروفیسر مارک پوسٹ نے 2013 میں دنیا کا پہلا کلچرڈ بیف برگر تیار کیا تھا۔ اسے 20 ہزار سے زائد خلیے کے ساتھ بنانے میں دو سال لگے تھے! کیا آپ اس کی قیمت جانتے ہیں؟ اس کی قیمت 30 ملین ڈالر سے زیادہ تھی! لندن میں اس برگر کا ذائقہ کیا گیا اور اسے ٹی وی پر براہ راست نشر کیا گیا۔ جس کے بعد میں بہت سی کمپنیوں نے کلٹیویٹیڈ گوشت پر توجہ دی۔ ہمارے ملک سے تعلق رکھنے والی کمپنیاں بھی یہ دستیاب کر رہی ہیں۔
چیلنجز کیا ہیں
- اس وقت خلیوں کی نشوونما کے لیے جس 20 فیصد فیٹل بوائین خون کا استعمال کیا جارہا ہے اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
- بڑے پیمانے پر کلچرڈ گوشت کی پیداوار کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس کے لیے کم از کم 2 لاکھ لیٹر کی صلاحیت والے بائیو ری ایکٹرز کی ضرورت ہے۔ اس قسم کا گوشت سنگاپور میں ہر ہفتے کھایا جاتا ہے۔ وہاں استعمال ہونے والے سب سے بڑے بائیو ری ایکٹر کی گنجائش صرف 1,200 لیٹر ہے۔ اگر ان کی کارکردگی کو بڑھایا جائے تو بڑے پیمانے پر پیداوار ممکن ہے۔ تب اس کی قیمتیں نیچے آئیں گی۔
- فی الحال کلچرڈ گوشت برگر، نگٹس اور ساسیج کی شکل میں دستیاب ہے۔ اس کی شکل میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سائنسداں پلانٹ پروٹین کی مدد لے رہے ہیں۔ گوشت کے ٹکڑوں کو تیار کرنے کے لیے سانچے کی ضرورت ہے تاکہ وہ گوشت کی طرح لگیں۔
لیبارٹری میں صرف گوشت تیار نہیں کیا جارہا ہے
- امریکہ کی پرفیکٹ کمپنی پہلے ہی لیبارٹری میں دودھ کی ایسی پروٹین بنا رہی ہے۔ اسے بنانے کے لیے گائے کے پروٹین کو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فنگس سے نکالنا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں لییکٹوز نہیں ہوتا ہے۔
- پرائمیٹو فوڈز کے نام سے ایک اسٹارٹ اپ ایک قدم آگے ہے۔ یہ کمپنی شیر اور زیبرا کا گوشت بنانے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ پہلے ہی ٹائیگر اسٹیک اور زیبرا سشی رولز کے ذائقے پیش کیے جاچکے ہیں۔
- فن لیس فوڈ نامی کمپنی نے مچھلی کا گوشت تیار کیا۔ یہ مائیکرو بریوری کے انداز میں ٹونا مچھلی کے خلیوں سے بنایا گیا ہے۔
- کچھ کمپنیاں لیبارٹری میں انڈے کی سفیدی بنانے میں کامیابی حاصل کرچکی ہے۔ اسکا ذائقہ بھی اصلی انڈے کی طرح ہی ہوتا ہے۔
لیبارٹری میں گوشت تیار کرنے کا خیال کہاں سے آیا؟
- طویل عرصے سے لیبارٹری میں گوشت کی پیداوار کو مکمن بنانے کا تصور سائنسدانوں کو اپنی جانب کھینچتا رہا ہے۔ مرغی کی ٹانگ یا بازو کھانے کے لیے پورے چکن کو کیوں بڑا کریں ؟ یہ سوال سابق برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے سال 1931 میں ایک مضمون اور اپنے کتاب میں اٹھایا تھا۔
- ڈچ سائنسدان ولیم وین ایلن نے 50 کی دہائی میں کلچرڈ گوشت کا تصور پیش کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انہیں جنگی قیدی کے طور پر بھوک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے فوڈ پروڈکشن اور فوڈ سیکورٹی کے لیے یہ کام کرنے کی ترغیب دی تھی۔
- پروفیسر رسل راس نے سنہ 1971 میں یہ پہلی بار ثابت کردیا تھا کہ لیبارٹری میں پٹھوں کے ریشے بنائے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے خنزیز کے دل کی شہ رگ بنائی تھی ۔ سال 1991 میں امریکی جان ایف وین نے بافتوں سے بڑھے ہوئے گوشت کی پیداوار کے لیے پیٹنٹ حاصل کیا۔
- سال 2001 میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے خلابازوں کی ضروریات کے پیش نظر کلچرڈ گوشت پر تجربات شروع کیے تھے۔ انہوں نے ایک اور کمپنی کی مدد سے مچھلی اور ٹرکی چکن کے ٹکڑے تیار کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔
- ٹشو کلچر اور آرٹ پروجیکٹ، ہارورڈ میڈیکل اسکول نے سال2003 میں مینڈک کے اسٹیم سیل سے گوشت کا چھوٹا ٹکڑا تیار کیا تھا۔
- پی ای ٹی اے نے 2008 میں اعلان کیا تھا کہ وہ سال 2012 تک کلچرڈ چکن دستیاب کرنے والوں کو 10 لاکھ ڈالر کا انعام دیں گے۔ بہت سے لوگوں نے کوشش کی لیکن ناکام رہے۔