کولکاتا: کلکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس بسواجیت بوس نے اسکول کی صورت حال کو دیکھنے کے لیے ایک عدالتی افسر مقرر کیا ہے۔ مبینہ طور پر اسکول کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس اسکول کے طلبہ اس سال دسویں جماعت کا امتحان دیں گے، ان کا مستقبل مشکوک ہوگیا ہے کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی امتحان کے لیے اندراج نہیں کرایا ہے۔ مرکزی کلکتہ کے اس پرائیویٹ اسکول کے کم از کم 300 طلبہ کے والدین نے اسکول انتظامیہ کے خلاف لاپرواہی کا الزام لگاتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ تمام طلبہ نے بورڈ امتحان کے رجسٹریشن کے لیے مطلوبہ فارم بھرے ہیں۔ لیکن اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ، کسی نے رجسٹر فارم نہیں بھرا ہے۔ اس صورت حال میں طلبہ امتحان دے سکیں گے یا نہیں، اس کو لے کر غیر یقینی صورت حال ہے۔۔ والدین نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔
عدالت یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ متعلقہ اسکول کے دعوے درست ہے یا نہیں۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اسکول کی مطلوبہ قانونی حیثیت کیا ہے۔ متعلقہ اسکول CISCE بورڈ سے تعلق رکھتا ہے۔ اسکول کی ایکریڈیٹیشن کو وقتاً فوقتاً تجدید کرنا پڑتا ہے۔ الزام ہے کہ حکام کی غفلت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا ہے ۔اس کی وجہ سے اس وقت اسکول کسی بھی بور ڈ سے منظور نہیں ہے ۔
جبکہ اسکول کا کہنا ہے کہ طلباء کے رجسٹریشن کے کاغذات سکول سے گم ہو گئے ہیں۔ سکول کی عمارت میں تعمیراتی کام جاری تھا۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ اس وقت دستاویزات گم ہو گئی تھیں۔جج نے کہا کہ آپ نے طلباء کو قلم کے بجائے پلے کارڈ تھمادیا ہے۔ اس عمر میں انہیں اس طرح سے چھوڑا نہیں جاسکتا ہے۔عدالت نے انتظامیہ کے کردار کو دیکھنے کے لیے عدالتی افسر مقرر کیا۔ وہ اس معاملے کو دیکھیں گے اور عدالت میں رپورٹ پیش کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:Primary TET مغربی بنگال ٹیٹ امتحان کی تاریخ کااعلان
طلباء کی طرف سے وکیل کلیان بنرجی نے کہا کہ اسکول کی لاپرواہی کی وجہ سے اب تک کئی طلباء اور والدین کی رات کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ وکیل نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت کا اس اسکول سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 21 ستمبر کو ہوگی۔