رامپور شہر کی تاریخی جامع مسجد میں آج چوتھے روز بھی خواتین اپنا احتجاجی مظاہرہ کرتی نظر آئیں۔ دراصل شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران اترپردیش کے دیگر اضلاع کی طرح رامپور میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرین کو تشدد برپا کرنے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا۔ جو کہ 27 دن سے مسلسل قید و بند کی صعبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ رامپور کے علماء اور سرکردہ شخصیات ضلع انتظامیہ سے رابطہ کرکے کئی مرتبہ ان کی رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ابھی تک ایک بھی شخص کی رہائی نہیں ہو سکی ہے۔
انہیں تمام باتوں اور ملی قایدین کی ناکامیوں سے تنگ آکر گرفتار افراد کے گھروں کی خواتین گذشتہ چار روز سے جامع مسجد میں بیٹھی ہوئی ہیں اور علماء و ملی قائدین کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ ملک و ملت کی رہنمائی کرنے والے ملی قائدین ان کے گرفتار افراد کی رہائی کرائیں یا ان کو ان مناسب سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔
قابل ذکر ہے کہ رامپور میں 21 دسمبر کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ ہونا تھا جس کی کال یہاں کی ملی تنظیموں کے علماء نے دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گرفتار مظاہرین کے اہل خانہ رامپور کے علماء سے رابطہ کرکے ان سے رہائی کے لئے جدوجہد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جامع مسجد رامپور میں جمع ان خواتین کا کہنا ہے کہ 21 دسمبر کے بعد سے ہی مسلسل ان کو یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ ان کے گھر کے افراد کو پولیس انتظامیہ رہا کر دیگی لیکن ابھی تک کسی بھی شخص کی رہائی نہیں ہو سکی ہے۔
متاثرہ خواتین سے یکجہتی کا اظہار کرنے بڑی تعداد میں شہر کی عام خواتین بھی جامع مسجد پہنچ رہی ہیں۔ جہاں یہ خواتین جمع ہوکر سی اے اے اور این آر سی کے خلاف پلے کارڈس ہاتھوں میں لیکر خاموش احتجاج بھی درج کرا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف 21 دسمبر کو ہوئے رامپور میں مظاہرے کے دوران تشدد برپا کرنے اور پولیس پر پتھر بازی کے الزام میں پولیس نے 116 نامزد جبکہ ایک ہزار سے زائد نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کو انجام دیتے ہوئے اب تک 28 لوگوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے۔ وہیں سرکاری املاک کے نقصان کی ریکوری کے لئے ضلع انتظامیہ نے تقریباً ساڑھے 14 لاکھ روپئے کا ریکوری نوٹس بھی ان کے گھروں میں بھیجا ہے۔