ریاست اترپردیش کے ضلع بنارس میں ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اترپردیش کے جنرل سکریٹری مولانا دیوان زماں نے کہا ہے کہ آسام حکومت کا مدارس عربیہ کے بند کرنے کا فیصلہ قابل مذمت و غیر آئینی ہے۔ تنظیم اس کی پرزور مخالفت کرتی ہے۔
انہوں نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی آئین میں اقلیتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی زبان کی ترویج و اشاعت اور تحفظ کے لیے تعلیمی ادارے کھول سکتے ہیں۔ حکومت ان کو فنڈز دینے میں تفریق نہیں کرے گی۔ اس کے برخلاف آسام حکومت نے مدارس اور سنسکرت ودیالے کو بند کرنے کا فیصلہ لیا جو قابل مذمت اور غیر آئینی بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی آوازیں اتر پردیش میں بھی اٹھ رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ آسام ماڈل اترپردیش میں بھی نافذ کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مدارس میں قطعاً مذہبی تعلیم نہیں دی جاتی ہے بلکہ قدیم زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے جیسے اردو، عربی، فارسی ہے۔ چونکہ اردو عربی فارسی کا بیشتر حصہ قرآن و حدیث میں محفوظ ہے اس لیے قرآن و حدیث کی بھی تعلیم دی جارہی ہے۔ جس کا مقصد قدیم زبانوں کی ترویج و ترقی ہے اس کو مذہب سے نہیں جوڑا جاسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی تعلیم دینا بھی آئینی اختیار میں شامل ہے مذہبی تعلیم دینا کوئی گناہ نہیں ہے۔ ان تمام پہلوؤں سے مدارس کو بند کرنا نہ کہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ ظالمانہ اور جابرانہ فیصلہ ہے جس کو مسلمان برداشت نہیں کرے گا بلکہ قانونی چارہ جوئی حاصل کرے گا اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔