اترپردیش کے شہر کانپور سے لکھنئو اور الہ اباد ہائی وے پر ہزاروں بے بس مزدور آٹو رکشہ، موٹر سائیکل اور پیدل ہی کئی دنوں کا لمبا سفر طے کرتے ہوئے آپ کو نظر آئیں گے۔
حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہر مزدور کو فی کس ایک ہزار روپے دینے کے ساتھ ساتھ، ان کے کھانے کے انتظامات، میڈیکل چیک اپ کی سہولت اور مزدوروں کو کسی طریقے کی کوئی تکلیف نہ ہونے جیسی باتیں کی گی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یومیہ کمانے والے مزدور بے بس ہوکر کر اتنا تکلیف دہ سفر اس لیے کررہے ہیں کیونکہ ان کے پاس وہاں کوئی کام نہیں تھا، لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے سب کچھ بند ہے جس کی وجہ سے یہ بھوکے تھے اس لیے مجبور ہوکر انھیں اپنے گھر کے لیے روانہ ہونا پڑا۔
چند مزدور ایسے بھی ہیں جن کے پاس کچھ بھی کھانے کو نہیں ہے انھیں جو ذریعہ ملا اس پر سوار ہوگئے۔ ہزاروں کلومیٹر کے طویل سفر پر بنا ٹیک لگائے مزدور ٹرکوں کی چھتوں پر بیٹھے ہیں جہاں نہ وہ لیٹ سکتے ہیں اور نہ ہی ٹھیک سے اپنے پیروں کو پھیلا سکتے ہیں۔
موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے لوگوں کا حال بھی یہی حال ہے ایک دن میں تین تا چار سو کلو میٹر گاڑی چلا کر وہ اپنے گھر پہنچنے کی کوشش میں لگے ہیں ۔
ان مسافروں بتایا کہ اگر راستے میں انھیں کہیں کوئی ڈھابہ یا دوکان کھلی مل جاتی ہے تو وہاں کئی گنا زیادہ قیمت پر سامان فروخت کیا جاتا ہے اور موجودہ وقت میں ان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔
حالانکہ لاک ڈاؤن کی مار جھیل رہے ایسے مسافروں کی مدد کے لیے کئی سماجی ادارے جگہ جگہ سڑکوں پر کھڑے ہوکر انھیں کھانے کا پیکٹ اور پانی دیتے ہیں جس سے ان مزدوروں کو وقتی راحت مل جاتی ہے۔
مسافر یہاں سے کئی دنوں کا لمبا سفر طئے کرتے ہوئے گزر رہے ہیں انھیں اپنی منزل پر پہنچنے کی جلدی ہے بس اگر یہ رکتے ہیں تو اتنی دیر کے لیے کہ انھیں کچھ کھانے پینے کے لیے مل جائے یا پھر وہ مسلسل آگے بڑھتے رہتے ہیں۔