ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ نئے زرعی قوانین صرف کسان مخالف نہیں بلکہ ہر شہری کو متاثر کرنے والا ہے۔ باوجود اس کے اتر پردیش میں ابھی بھی کسان احتجاج بڑے پیمانے پر نہیں ہو پایا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یو پی حکومت کسان لیڈران یا سماجی کارکنان کو پہلے ہی حراست میں لے مہم کو کمزور کر دیتی ہے۔
ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ پہلے انگریزی حکومت نے بھی بھارتی کاشتکاروں سے نیل اور افیم کی کھیتی جبراً کروائی تھی۔ اسی طرح موجودہ حکومت بھی کاشتکاروں کے ساتھ 'معاہدہ' پر کھیتی کروانا چاہتی ہے۔
ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ کوئی بھی کمپنی یا سوسائٹی کاشتکاروں کو کسی بھی فصل کے لیے پیسے دے گی اور معاہدہ کے مطابق کسان کو اسی کمپنی یا سوسائٹی کو اپنا اناج فروخت کرنا ہوگا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ "اگر کسان کی فصل میں ذرا سی بھی کسی قسم کی کمی آئی تو کمپنی شرائط کے مطابق طے قیمت پر نہ خرید کر بہت ہی کم داموں پر خریدے گی اور مجبوراً کسان کو ایسا کرنا پڑے گا۔"
رہائی منچ کے صدر نے کہا کہ زرعی قوانین صرف کسانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے ہر شہری کے خلاف ہے۔ بڑی کمپنیاں یا سوسائٹی کم داموں پر کسان سے اناج خرید کر اپنے گودام میں جمع خوری کریں گے۔ اس کے بعد اضافی قیمت کے ساتھ عوام کو فروخت کریں گے لہذا کسان اور عام انسان اس قانون سے متاثر ہوگا۔ بڑی کمپنیاں یا فرم کو مزید منافع ہوگا کیونکہ ان پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوگا۔
ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ کسان اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہے ہیں، لیکن عوام ابھی احتجاج میں شامل نہیں ہوئی۔ اس قانون سے سبھی متاثر ہوں گے لہذا عوام کو بھی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ رہائی منچ کسانوں کے ساتھ ہے اور اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ حکومت سے کرتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ایک طرف کسان تنظیموں کے ذمہ داران، سماجی کارکنان اور سیاسی جماعتوں نے زرعی قوانین کو کسانوں کے خلاف بتا کر احتجاج کی حمایت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب بی جے پی حکومت گاؤں دیہات جاکر کسانوں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ "زرعی قوانین کسانوں کے حق میں ہے۔ ان قوانین کے ذریعے کسان اونچی قیمت پر اپنی فصل معاہدہ کے مطابق فروخت کر سکیں گے۔"
مزید پڑھیں:
کسانوں کی حمایت میں آئی ننھی بچی، وزیراعظم سے قوانین واپس لینے کی اپیل کی
بی جے پی کے اس مہم کے بعد کسان مخالف احتجاج کمزور ہونا طے مانا جا رہا ہے کیونکہ ویسے بھی کسان احتجاج ابھی تک عوامی تحریک کی شکل اختیار نہیں کر پایا۔