علی گڑھ:ان دنوں بھارت میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کا مسئلہ کافی سرخیوں میں ہے۔ ٹی وی، اخبارات اور نیوز چیلنوں پر یکساں سول کوڈ سے متعلق کافی بحثیں جاری ہیں۔ دراصل مرکزی حکومت ملک میں ایک ایسا قانون بنانا چاہتی ہے جس کے مطابق تمام مذاہب کے عائلی قوانین یکساں ہوں، جو شادی وبیاہ، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے معاملات میں تمام مذہبی برادریوں پر یکساں لاگو ہوگا۔
یکساں سول کوڈ (یو سی سی) سے متعلق پروفیسر فیضان مصطفٰی نے بتایا بھارت میں جتنی بھی مذہبی کمیونٹیز ہے وہ اپنے اپنے پرسنل لاء سے چلتی ہیں اور جہاں تک مسلم پرسنل لاء کی بات ہے وہ بنیادی طور پر اینگلو محمڈن لاء ہے جس کا کچھ حصہ کوڈیفائی ہے اور کچھ فیصلہ پر مبنی ہے جیسے شاہبانو کا فیصلہ، ٹریپل طلاق کا فیصلہ، وقف کا فیصلہ پرسنل لاء کا حصہ ہے۔
مصطفٰی نے مزید بتایا گزشتہ کچھ دہائیوں سے میرا یہ ماننا ہے جب بھی پرسنل لاء میں اصلاح ہوتی ہے تو اس کو لوگ پسند نہیں کرتے۔ جب کھبی مذہبی لاء میں اصلاح کی جاتی ہے تو لوگ اس کو مذہب میں تبدیلی مانتے ہیں اسی لئے جب ہندو کوڈ بل آرہا تھا تو ہندوں نے بہت سخت مخالف کی تھی۔
اسی لئے اس کا بہترین اور عمدہ طریقہ یہ ہے کہ جس طرح ہمنے ہندو لاء ریفارم کے سلسلہ میں کئے پہلے 1940 میں ہندو لاء کمیٹی بنائی اس کے بعد پاندرہ سال بعد 1955-56 میں قانون بنا اسی طرح پہلے مسلم لاء کمیٹی بنے اس میں علماء کو شامل کیا جائے ان کی رائے مشورے کئے جائے اس کے بعد کچھ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:Maulana Bilal Abdul Hai Hasani Nadwi مدارس کے فضلاء کو ملک کے دستور اور قانون سے واقف کرانا نہایت ضروری
جمہوریت میں چیز ہونی چاہیے جس کا وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیا جائے اور کسی کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور میں قانون کی اصلاح کو انتخابات کے مدعہ سے کہیں زیادہ مسسل سست عمل مانتا ہوں۔۔