لاک ڈاؤن اور اس کے بعد بے شمار رِشتے ازدواجی زندگی سے منسلک ہوئے ہیں۔ شادیوں میں زیادہ اخراجات اور بےجا جہیز برسوں سے سماجی ناسور تھا جو غریب پریوار کے لیے نئے مصائب کو جنم دیتا تھا، لیکن لاک ڈاؤن میں کم اخراجات پر مشتمل بے شمار شادیاں ہوئیں ہیں جسے مستقبل میں فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
بنارس کے جیت پورہ تھانہ علاقہ کے رہنے والے اقبال انصاری بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں بھتیجی کی شادی ہوئی جو انتہائی کم خرچ میں مکمل ہوگئی نہ ہی کسی سے قرض لینے کی نوبت آئی اور نہ ہی کسی طرح کی دشواری پیش آئی۔
انہوں نے بتایا کم افراد پر مشتمل شادیوں میں لڑکی والوں کو زیادہ آسانی ہوتی ہے حالانکہ دولہا والے بھی اس کے فوائد سے انکار نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہی شادی اگر لاک ڈاؤن سے قبل ہوتی تو اخراجات بڑھ جاتے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے کم خرچ میں بزم شادی منعقد ہوئی ہے۔
بنارس کے نئی سڑک پر رہنے والے شاہد علی خان عرف منا کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں حکومت نے شادی کے لیے جو قوانین جاری کیے تھے اس پر عمل آوری سے غریب اور امیر کی شادی میں یکسانیت دیکھنے کو ملی ورنہ سماج میں امیری اور غریبی کا اثر شادیوں میں دیکھنے کو ملتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی شادی کو فروغ دینا سماج کی ذمہ داری ہے تاکہ غریب عوام بھی اپنی بیٹیوں کی شادی بآسانی کرسکیں۔
بنارس کے معروف عالم دین مفتی ہارون رشید نقشبندی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اسلام نے فضول خرچی اور جہیز جیسی لعنت کو سختی سے منع فرمایا ہے لہذا لاک ڈاؤن میں جو شادی ہوئی وہ اسلام کے قوانین کے مطابق شادی ہوئی ہیں اور ایسی شادیوں کو سماج میں فروغ پانا بہت ضروری ہے۔
مزید پڑھیے: وارانسی: جہیز کے بغیر شادی، معاشرے کے لیے خوش آئند قدم
انہوں نے کہا کہ بیشتر ایسے غریب افراد ہیں جو قرض لے کر اپنی بیٹیوں کی شادی کرتے ہیں اور نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن لاک ڈاؤن میں بیشتر لڑکے اور لڑکیاں ازدواجی رشتہ سے منسلک ہوئے ہیں اور اہل خانہ کو پریشانیوں کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ سماج میں ایسی شادیاں فروغ پائیں گی تاکہ برسوں قدیم شادیوں میں ہورہی فضول خرچی اور جہیز جیسا ناسور سماج سے ختم ہو سکے۔