دارلحکومت لکھنؤ میں ریشمہ صدیقی نے خواتین کے حقوق کے اعتبار سے نئی عبارت لکھتے ہوئے قرآن و احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے حقوق کا استعمال کیا اور شوہر سے خلع لے کر آزاد ہونے کا صحافیوں کے سامنے اعلان کیا ہے۔
خاتون نے بتایا کہ ان کا نکاح 24 فروری 2006 کو شارق صدیقی کے ساتھ ہوا تھا لیکن کچھ سال بعد ہی دونوں کے بیچ لڑائی جھگڑے ہونے شروع ہوگئے اور یہ مسلسل بڑھتا ہی گیا جس کی وجہ سے خلع لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ہماری 10 سال کی ایک بیٹی بھی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے رشتےمیں کوئی تبدیلی نہیں ہو پائی۔ وہ میرے ساتھ ہمیشہ مار پیٹ کرتے رہے۔
خاتون کا کہنا ہے کہ میرے شوہر نے ایک بار میرے کنپٹی پر پسٹل لگا کر جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ اس واقعے کے بعد سے میں ان سے الگ رہنے لگی۔
اتنا سب ہونے کے بعد فروری 2018 میں ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
ہمارا ہائیکورٹ سے سمجھوتہ بھی ہوا اور میں اس شرط کے مطابق رہی لیکن میرے شوہر نے شرائط ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ لہذا میں اپنے شہر سے چھٹکارا پانے کے لیے خلع لینے کا فیصلہ کیا ہے اور آپ لوگوں کے سامنے اعلان کرتی ہوں۔ ریشمہ صدیقی نے کہا کہ اب میں چاہتی ہوں کہ اپنی بیٹی کو اعلی تعلیم دوں۔
سماجی کارکن نائش حسن نے کہا کہ قرآن و حدیث میں عورت کو خلع لینے کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اسی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے آج ریشمہ صدیقی نے شوہر سے الگ ہونے کا فیصلہ لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریشمہ بطور 50 ہزار روپیہ مہر چھوڑ دیا ہے۔ سماجی کارکن نے کہا کہ سنہ 1946 میں سیتاپور ضلع کی شکیکن انصاری نام کی خاتون نے آٹھ آنے کے اسٹام پیپر میں اپنے شوہر محمد اسحاق انصاری کو مہر کی رقم 526 روپیہ 4 آنہ چھوڑتے ہوئے خلع نامہ بھیج دیا تھا۔ جس میں وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہوں اور اس طرح ان کی شادی برخاست ہو گئی تھی۔
ملک میں طلاق ثلاثہ بل گذشتہ ماہ نافذ ہوا ہے لیکن خلع لینے کا یہ اپنے آپ میں نیا معاملہ ہے۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ مسلم خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کرتی ہیں۔
دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ آنے والے وقت میں مسلم سماج میں اس فیصلے کا کیا اثرات دیکھنے کو ملتا ہے؟