ETV Bharat / state

لکھنئو: خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کا نام بدلنے سے فائدہ ہوا کیا؟ - lucknow university news

دارالحکومت لکھنؤ میں واقع خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کا نام تبدیل کردیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کہا کہ نام تبدیل کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس سے طلباء کو زیادہ فائدہ ہوگا۔

یونیورسٹی نام بدلنے سے فائدہ ہوا ہے
یونیورسٹی نام بدلنے سے فائدہ ہوا ہے
author img

By

Published : May 22, 2020, 1:14 PM IST



ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران شیخ الجامعہ پروفیسر ماہ رخ مرزا نے بتایا کہ خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کے نام تبدیل ہونے سے کوئی نقصان نہیں ہے، بلکہ کچھ لوگ بلاوجہ اس مدعہ کو موضوع بحث بنا رہے ہیں۔

پروفیسر مرزا نے بتایا کہ شعبہ اردو اور عربی کا یہ حال ہے کہ وہاں زیادہ تر سیٹیں خالی ہی رہ جاتی ہیں۔ بہت مشکل سے فارسی زبان میں 20-25 طلباء مل پا تے ہیں۔

خواجہ معین الدین چشتی 'بھاشا' یونیورسٹی



اب 'خواجہ معین الدین چشتی بھاشا یونیورسٹی' کے اسم سے موسوم ہو گیا ہے، جس میں پہلے کی طرح عربی، اردو اور فارسی زبان کی تعلیم جا ری رہے گی۔ مگر نام کے تبدیل ہو نے کے بعد اس یونیورسٹی میں جاپانی، فرینچ، رشین، جرمن کے علاوہ دوسری بھارتی زبانوںکو بھی شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ہمارے طلباء کو زیادہ مواقع فراہم ہوں گے۔ کیونکہ آج کل طلبا کو مادری زبان کے علاوہ دیگر کئی زبانوں کو سیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے، جسے ہماری یونیورسٹی بحسن خوبی انجام دے گی۔

انہوں نے کہا کہ کہ لاک ڈاؤن کے نفاد کے سبب تمام طلباء کے آخری سال کے امتحانات نہیں ہو پائے، جس سے ان کے نتائج میں تاخیر ہونا لازمی ہے۔ ایسے میں خواجہ معین الدین چشتی بھاشا یونیورسٹی ان طلباء کے لئے سنہرا موقع فراہم کر ا رہا ہے۔

پروفیسر مرزا نے کہا کہ جو طلباء خواجہ معین الدین چشتی 'بھاشا' یونیورسٹی میں داخلہ کے خواہش مند ہیں وہ ابھی آن لائن فارم بھر کر اپنی سیٹ مختص کراسکتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں صرف ایک ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اگر انکا نام ہمارے یہاں آ جاتا ہے تو ایک ہزار روپے کو بطور فیس مانا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ یونیورسٹی سرکاری ہے اور اس یونیورسٹی کو وہ سارے اختیارات حاصل ہیں، جو دیگر یونیورسٹیز کو حاصل ہیں۔

عوام میں یہ غلط پیغام پھیلا ہے کہ گیا کہ خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی میں تعلیم کا میڈیم اردو زبان ہے جب کہ یہ بالکل غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم سماج بھی اپنے بچوں کا داخلہ یہاں نہیں کرواتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو اردو، عربی، فارسی نہیں پڑھانا چاہتے۔

پروفیسر ماہ رخ مرزا نے کہا کہ یہ غلط افواہیں مسلسل پھیلائی جا رہی ہیں کہ یونیورسٹی سے اردو، عربی اور فارسی ختم کیا جا رہا ہے، ایسا نہیں ہے۔ صرف نام بدل کر "خواجہ معین الدین چشتی بھاشا یونیورسٹی" کر دیا گیا ہے۔

وائس چانسلر نے کہا کہ اس سے یہاں پر اردو، عربی، فارسی زبان کے علاوہ جرمن، جاپانی، فرنچ، سنسکرت اور دوسری زبانیں بھی شامل کی جائیں گی ۔ جس سے طلباء کو مزید فائدہ ہوگا۔ اور انہیں روزگار حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صرف اردو عربی زبان روزگار کے مواقع فراہم نہیں کرا سکتی۔

قابل ذکر ہے کہ اردو شعبہ میں 14 سیٹیں ہیں لیکن طلباء کی تعداد بہت کم ہے۔ یہی حال عربی اور فارسی کا ہے۔ پروفیسر مرزا نے کہا کہ اگر یونیورسٹی کا نام تبدیل نہیں ہوتا اور اس میں دوسری زبانیں شامل نہیں کی جاتی ہیں تو مجبورا بچوں کی فیس میں اضافہ کیا جاتا کیونکہ حکومت کب تک خسارا کا سودا کرتی رہیگی؟

عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یونیورسٹی 'اقلیتی' ہے مگر ایسا بالکل نہیں ہے۔ ماہ رخ مرزا نے کہا کہ اگر اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ ہمارے یہاں سے خود کو وابستہ کر لے اور اپنے مدارس میں "کامل اور فاضل" کی جگہ بی اے اور ایم اے کروائے تو یقینی طور پر طلباء بڑے پیمانے پر مستفید ہوں گے۔

غور طلب ہے کہ "ابھی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے منشی/مولوی اور عالم کو ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کے برابر ہی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن کامل، فاضل کو بی اے اور ایم اے کے طور پر نہیں مانا جاتا۔" جس کی وجہ سے مدرسہ بورڈ سے کامل اور فاضل کی تکمیل کرنے سے طلباء کو کوئ فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے ، یہ صرف وقت کا ضیاع ہے۔

ماہ رخ مرزا نے کہا کہ اگر مدرسہ بورڈ ہم سے تعاون کرتا ہے، تو ہم انہیں مدارس میں ہی بی اے اور ایم اے کورس چلانے کی اجازت دیں گے۔ وہ اپنے یہاں ہی بچوں کو تعلیم دیں اور ہم اس کی ڈگری دیں گے، جس کی ہر جگہ اہمیت ہوگی اور طلباء کو روزگار حاصل کرنے میں سہولت رہے گی۔

وائس چانسلر پروفیسر ماہ رخ مرزا نے کہا کہ ہمارا مقصد ایسے طلباء تیار کرنا ہے، جو سماج میں اپنی الگ شناخت بنائیں۔



ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران شیخ الجامعہ پروفیسر ماہ رخ مرزا نے بتایا کہ خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کے نام تبدیل ہونے سے کوئی نقصان نہیں ہے، بلکہ کچھ لوگ بلاوجہ اس مدعہ کو موضوع بحث بنا رہے ہیں۔

پروفیسر مرزا نے بتایا کہ شعبہ اردو اور عربی کا یہ حال ہے کہ وہاں زیادہ تر سیٹیں خالی ہی رہ جاتی ہیں۔ بہت مشکل سے فارسی زبان میں 20-25 طلباء مل پا تے ہیں۔

خواجہ معین الدین چشتی 'بھاشا' یونیورسٹی



اب 'خواجہ معین الدین چشتی بھاشا یونیورسٹی' کے اسم سے موسوم ہو گیا ہے، جس میں پہلے کی طرح عربی، اردو اور فارسی زبان کی تعلیم جا ری رہے گی۔ مگر نام کے تبدیل ہو نے کے بعد اس یونیورسٹی میں جاپانی، فرینچ، رشین، جرمن کے علاوہ دوسری بھارتی زبانوںکو بھی شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ہمارے طلباء کو زیادہ مواقع فراہم ہوں گے۔ کیونکہ آج کل طلبا کو مادری زبان کے علاوہ دیگر کئی زبانوں کو سیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے، جسے ہماری یونیورسٹی بحسن خوبی انجام دے گی۔

انہوں نے کہا کہ کہ لاک ڈاؤن کے نفاد کے سبب تمام طلباء کے آخری سال کے امتحانات نہیں ہو پائے، جس سے ان کے نتائج میں تاخیر ہونا لازمی ہے۔ ایسے میں خواجہ معین الدین چشتی بھاشا یونیورسٹی ان طلباء کے لئے سنہرا موقع فراہم کر ا رہا ہے۔

پروفیسر مرزا نے کہا کہ جو طلباء خواجہ معین الدین چشتی 'بھاشا' یونیورسٹی میں داخلہ کے خواہش مند ہیں وہ ابھی آن لائن فارم بھر کر اپنی سیٹ مختص کراسکتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں صرف ایک ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اگر انکا نام ہمارے یہاں آ جاتا ہے تو ایک ہزار روپے کو بطور فیس مانا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ یونیورسٹی سرکاری ہے اور اس یونیورسٹی کو وہ سارے اختیارات حاصل ہیں، جو دیگر یونیورسٹیز کو حاصل ہیں۔

عوام میں یہ غلط پیغام پھیلا ہے کہ گیا کہ خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی میں تعلیم کا میڈیم اردو زبان ہے جب کہ یہ بالکل غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم سماج بھی اپنے بچوں کا داخلہ یہاں نہیں کرواتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو اردو، عربی، فارسی نہیں پڑھانا چاہتے۔

پروفیسر ماہ رخ مرزا نے کہا کہ یہ غلط افواہیں مسلسل پھیلائی جا رہی ہیں کہ یونیورسٹی سے اردو، عربی اور فارسی ختم کیا جا رہا ہے، ایسا نہیں ہے۔ صرف نام بدل کر "خواجہ معین الدین چشتی بھاشا یونیورسٹی" کر دیا گیا ہے۔

وائس چانسلر نے کہا کہ اس سے یہاں پر اردو، عربی، فارسی زبان کے علاوہ جرمن، جاپانی، فرنچ، سنسکرت اور دوسری زبانیں بھی شامل کی جائیں گی ۔ جس سے طلباء کو مزید فائدہ ہوگا۔ اور انہیں روزگار حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صرف اردو عربی زبان روزگار کے مواقع فراہم نہیں کرا سکتی۔

قابل ذکر ہے کہ اردو شعبہ میں 14 سیٹیں ہیں لیکن طلباء کی تعداد بہت کم ہے۔ یہی حال عربی اور فارسی کا ہے۔ پروفیسر مرزا نے کہا کہ اگر یونیورسٹی کا نام تبدیل نہیں ہوتا اور اس میں دوسری زبانیں شامل نہیں کی جاتی ہیں تو مجبورا بچوں کی فیس میں اضافہ کیا جاتا کیونکہ حکومت کب تک خسارا کا سودا کرتی رہیگی؟

عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یونیورسٹی 'اقلیتی' ہے مگر ایسا بالکل نہیں ہے۔ ماہ رخ مرزا نے کہا کہ اگر اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ ہمارے یہاں سے خود کو وابستہ کر لے اور اپنے مدارس میں "کامل اور فاضل" کی جگہ بی اے اور ایم اے کروائے تو یقینی طور پر طلباء بڑے پیمانے پر مستفید ہوں گے۔

غور طلب ہے کہ "ابھی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے منشی/مولوی اور عالم کو ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کے برابر ہی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن کامل، فاضل کو بی اے اور ایم اے کے طور پر نہیں مانا جاتا۔" جس کی وجہ سے مدرسہ بورڈ سے کامل اور فاضل کی تکمیل کرنے سے طلباء کو کوئ فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے ، یہ صرف وقت کا ضیاع ہے۔

ماہ رخ مرزا نے کہا کہ اگر مدرسہ بورڈ ہم سے تعاون کرتا ہے، تو ہم انہیں مدارس میں ہی بی اے اور ایم اے کورس چلانے کی اجازت دیں گے۔ وہ اپنے یہاں ہی بچوں کو تعلیم دیں اور ہم اس کی ڈگری دیں گے، جس کی ہر جگہ اہمیت ہوگی اور طلباء کو روزگار حاصل کرنے میں سہولت رہے گی۔

وائس چانسلر پروفیسر ماہ رخ مرزا نے کہا کہ ہمارا مقصد ایسے طلباء تیار کرنا ہے، جو سماج میں اپنی الگ شناخت بنائیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.