ETV Bharat / state

کانپور: سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو صرف استعمال کیا

کانپور میں اسدالدین اویسی نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سماج وادی پارٹی ہو یا بہوجن سماج پارٹی، سبھی نے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا لیکن کسی نے بھی مسلمانوں کی قیادت نہیں کی۔ سبھی نے مسلمانوں کا صرف استعمال کیا۔

کانپور: سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو صرف استعمال کیا
کانپور: سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو صرف استعمال کیا
author img

By

Published : Sep 27, 2021, 1:09 PM IST

کانپور: اترپردیش میں آئندہ سال 2022 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سیاسی جماعتیں کمر بستہ ہیں۔

اس دوران، AIMIM (آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین) کے قومی صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اتوار کو کانپور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'بی جے پی، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی صرف مسلمانوں کو استعمال کرتی رہی ہے'۔

کانپور میں اویسی نے کہا کہ 'تمام اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مسلمانوں کی حالت بینڈ بجانے والوں جیسی ہوگئی ہے'، مسلمانوں کو پہلے گانا بجانے کے لیے کہا جاتا ہے، لیکن شادی کے مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی انہیں باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ اویسی نے کہا کہ اگر آپ اپنی سیاسی اہمیت بنانا چاہتے ہیں تو اے آئی ایم آئی ایم کے لیے ووٹ کریں۔

اویسی نے کہا کہ 'یوپی میں ٹھاکروں، برہمنوں، یادوؤں کا ایک بڑا لیڈر ضرور ہے، لیکن مسلمانوں کا آج تک کوئی لیڈر نہیں ہے جو اپنے حقوق کی بات کرے۔ انہوں نے سیسامؤ کے رکن اسمبلی عرفان سولنکی اور کینٹ ایم ایل اے سہیل انصاری کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا کہ یہاں کے مسلم ایم ایل اے نے کبھی بھی سی اے اے اور این آر سی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔

اویسی نے سماجوادی پارٹی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 'مسلمانوں کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی سماجوادی پارٹی، سماجی انصاف کے لیے دلت مسلم اتحاد کی بات کرنے والی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کسی نے بھی مسلمانوں کو قیادت نہیں دی، وہ انہیں الزام کو اتر پردیش میں اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اترپردیش کی آبادی میں مختلف ذاتیں ہیں، جو کم و بیش اپنی قیادت رکھتے ہیں، لیکن مسلمان جو 19 فیصد سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں، ان کی کوئی رہنما نہیں ہے۔ ریاست میں 82 اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں، جہاں پر مسلم ووٹر جیت یا ہار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن سیاسی شراکت کے نام پر ان کے بیگ میں کچھ خاص نہیں ہے۔

وہیں، اے آئی ایم آئی ایم کے قومی ترجمان سید عاصم وقار نے اتوار کو کہا کہ ان کی پارٹی کا بنیادی ہدف مسلمانوں کو اپنی برادری کی ترقی اور بہتر مستقبل کے لیے، سیاسی سوچ اور قیادت کا انتخاب کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ 'نام نہاد سیکولر پارٹیاں' ، جو مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی مسلم قیادت کو ابھرنے نہیں دیا، اور سچر کمیٹی کی رپورٹ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو جماعتیں مسلمانوں کی بات کرتی ہے وہیں مسلمانوں کو اگے بڑھنے نہیں دیا۔

مزید پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ اب جب اویسی مسلمانوں کو قیادت دینے کی بات کر رہے ہیں تو ان جماعتوں میں ہنگامہ برپا ہوگیا ہے جو اس برادری کو اپنا سیاسی غلام سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر ابو عاصم اعظمی نے اویسی پر تنقید کرتے ہوئے'ووٹ کٹوا' کہا، اعظمی نے اویسی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 'مسلمانوں نے ہمیشہ انتخابات میں ایس پی کا ساتھ دیا ہے اور بی جے پی نے اویسی کی پارٹی کو آئندہ اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹ کو تقسیم کرکے ایس پی کو نقصان پہنچانے کے لیے میدان میں اتارا ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مسلمان بی جے پی کی شرط کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں اور وہ کسی کی بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔

اتر پردیش کانگریس کے میڈیا کنوینر للن کمار نے اس تعلق سے کہا کہ ان کی پارٹی سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ جہاں تک اویسی کا تعلق ہے، وہ صرف انتخابات کے وقت مسلمانوں کو یاد کرتے ہیں۔ وہیں کانگریس کو مسلمانوں کی حمایت بھی مل رہی ہے اور اویسی کے آنے سے انتخابات میں پارٹی کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

سیاسی تجزیہ کار پرویز احمد نے کہا کہ اویسی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نہیں بلکہ وہ ان جماعتوں کے نشانے پر ہیں۔ جو اب تک بی جے پی کا خوف دکھا کر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پارٹیاں اس بات کو فروغ دے رہی ہیں کہ اویسی اتر پردیش میں مسلم ووٹ کاٹ کر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مردم شماری 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ 19.26 فیصد ہے۔ قیاس لگایا جارہا ہے کہ ریاست کے 403 میں سے 82 اسمبلی حلقوں میں مسلم ووٹر فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔

وہیں سیاسی تجزیہ کار راشد کدوائی کا ماننا ہے کہ 'اویسی کو بہار میں کامیابی اس لیے کیونکہ ان کے پاس کچھ اچھے امیدوار آگئے تھے، جن کا اپنا ووٹ بیس تھا۔ انہوں نے کہا ، اتر پردیش میں ایسا نہیں لگتا کہ اویسی کو زیادہ کامیابی ملے گی کیونکہ اترپردیش کے بیشتر مسلمان اس پارٹی کو ووٹ دیتے رہے ہیں جو بی جے پی کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

واضح رہے کہ اے آئی ایم آئی ایم نے اتر پردیش میں 100 اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اویسی کی پارٹی نے 2017 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں 38 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے، لیکن ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی۔ حالانکہ بہار میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں اس نے سیمانچل میں پانچ نشستوں پر جیت حاصل کی تھی۔ اس سے ان کی پارٹی پرجوش ہے اور اتر پردیش میں بھی کامیابی کا یقین رکھتی ہے۔

کانپور: اترپردیش میں آئندہ سال 2022 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سیاسی جماعتیں کمر بستہ ہیں۔

اس دوران، AIMIM (آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین) کے قومی صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اتوار کو کانپور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'بی جے پی، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی صرف مسلمانوں کو استعمال کرتی رہی ہے'۔

کانپور میں اویسی نے کہا کہ 'تمام اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مسلمانوں کی حالت بینڈ بجانے والوں جیسی ہوگئی ہے'، مسلمانوں کو پہلے گانا بجانے کے لیے کہا جاتا ہے، لیکن شادی کے مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی انہیں باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ اویسی نے کہا کہ اگر آپ اپنی سیاسی اہمیت بنانا چاہتے ہیں تو اے آئی ایم آئی ایم کے لیے ووٹ کریں۔

اویسی نے کہا کہ 'یوپی میں ٹھاکروں، برہمنوں، یادوؤں کا ایک بڑا لیڈر ضرور ہے، لیکن مسلمانوں کا آج تک کوئی لیڈر نہیں ہے جو اپنے حقوق کی بات کرے۔ انہوں نے سیسامؤ کے رکن اسمبلی عرفان سولنکی اور کینٹ ایم ایل اے سہیل انصاری کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا کہ یہاں کے مسلم ایم ایل اے نے کبھی بھی سی اے اے اور این آر سی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔

اویسی نے سماجوادی پارٹی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 'مسلمانوں کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی سماجوادی پارٹی، سماجی انصاف کے لیے دلت مسلم اتحاد کی بات کرنے والی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کسی نے بھی مسلمانوں کو قیادت نہیں دی، وہ انہیں الزام کو اتر پردیش میں اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اترپردیش کی آبادی میں مختلف ذاتیں ہیں، جو کم و بیش اپنی قیادت رکھتے ہیں، لیکن مسلمان جو 19 فیصد سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں، ان کی کوئی رہنما نہیں ہے۔ ریاست میں 82 اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں، جہاں پر مسلم ووٹر جیت یا ہار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن سیاسی شراکت کے نام پر ان کے بیگ میں کچھ خاص نہیں ہے۔

وہیں، اے آئی ایم آئی ایم کے قومی ترجمان سید عاصم وقار نے اتوار کو کہا کہ ان کی پارٹی کا بنیادی ہدف مسلمانوں کو اپنی برادری کی ترقی اور بہتر مستقبل کے لیے، سیاسی سوچ اور قیادت کا انتخاب کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ 'نام نہاد سیکولر پارٹیاں' ، جو مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی مسلم قیادت کو ابھرنے نہیں دیا، اور سچر کمیٹی کی رپورٹ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو جماعتیں مسلمانوں کی بات کرتی ہے وہیں مسلمانوں کو اگے بڑھنے نہیں دیا۔

مزید پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ اب جب اویسی مسلمانوں کو قیادت دینے کی بات کر رہے ہیں تو ان جماعتوں میں ہنگامہ برپا ہوگیا ہے جو اس برادری کو اپنا سیاسی غلام سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر ابو عاصم اعظمی نے اویسی پر تنقید کرتے ہوئے'ووٹ کٹوا' کہا، اعظمی نے اویسی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 'مسلمانوں نے ہمیشہ انتخابات میں ایس پی کا ساتھ دیا ہے اور بی جے پی نے اویسی کی پارٹی کو آئندہ اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹ کو تقسیم کرکے ایس پی کو نقصان پہنچانے کے لیے میدان میں اتارا ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مسلمان بی جے پی کی شرط کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں اور وہ کسی کی بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔

اتر پردیش کانگریس کے میڈیا کنوینر للن کمار نے اس تعلق سے کہا کہ ان کی پارٹی سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ جہاں تک اویسی کا تعلق ہے، وہ صرف انتخابات کے وقت مسلمانوں کو یاد کرتے ہیں۔ وہیں کانگریس کو مسلمانوں کی حمایت بھی مل رہی ہے اور اویسی کے آنے سے انتخابات میں پارٹی کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

سیاسی تجزیہ کار پرویز احمد نے کہا کہ اویسی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نہیں بلکہ وہ ان جماعتوں کے نشانے پر ہیں۔ جو اب تک بی جے پی کا خوف دکھا کر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پارٹیاں اس بات کو فروغ دے رہی ہیں کہ اویسی اتر پردیش میں مسلم ووٹ کاٹ کر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مردم شماری 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ 19.26 فیصد ہے۔ قیاس لگایا جارہا ہے کہ ریاست کے 403 میں سے 82 اسمبلی حلقوں میں مسلم ووٹر فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔

وہیں سیاسی تجزیہ کار راشد کدوائی کا ماننا ہے کہ 'اویسی کو بہار میں کامیابی اس لیے کیونکہ ان کے پاس کچھ اچھے امیدوار آگئے تھے، جن کا اپنا ووٹ بیس تھا۔ انہوں نے کہا ، اتر پردیش میں ایسا نہیں لگتا کہ اویسی کو زیادہ کامیابی ملے گی کیونکہ اترپردیش کے بیشتر مسلمان اس پارٹی کو ووٹ دیتے رہے ہیں جو بی جے پی کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

واضح رہے کہ اے آئی ایم آئی ایم نے اتر پردیش میں 100 اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اویسی کی پارٹی نے 2017 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں 38 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے، لیکن ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی۔ حالانکہ بہار میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں اس نے سیمانچل میں پانچ نشستوں پر جیت حاصل کی تھی۔ اس سے ان کی پارٹی پرجوش ہے اور اتر پردیش میں بھی کامیابی کا یقین رکھتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.