ETV Bharat / state

فلسطینی عوام اپنے ملک کی آزادی کیلئے جنگ لڑرہے ہیں: مولانا ارشد مدنی - حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ

جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سہارنپور دیوبند میں منعقدہ ایک پروگرام میں فلسطین میں جاری جنگ اور ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال پر خطاب کیا۔

Palestine Israel war
Palestine Israel war
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 14, 2023, 9:43 AM IST

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ریاست اترپردیش کے سہانپور دیوبند کے مدنی ہائی اسکول میں جمعیۃ علماء اترپردیش کی مجلس منتظمہ کے ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے عوام اپنے ملک کے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور یہ جنگ ایک دو دن میں نہیں جیتی جاسکتی بلکہ اس کے لئے اسی طرح مسلسل قربانیاں دینی پڑے گی جس طرح ہم نے اپنے ملک کی آزادی کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہی لوگ اول جلول باتیں کرتے ہیں جو فلسطین کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ایک سازش کے تحت امریکہ، برطانیہ اور دوسری طاقتوں نے یہودیوں کو وہاں لاکر آباد کیا۔

انہوں نے آگے کہا کہ فرقہ پرستی نے حیرت انگیز طورپر عالمی شکل اختیار کرلی ہے اس کا افسوس ناک نظارہ اس جنگ میں دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جب مجبور و بے بس فلسطین کے عوام کے خلاف یہودی اور تمام عیسائی ممالک نہ صرف متحد ہوچکے ہیں بلکہ کھل کر اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں۔ بعض لوگ اسے عالمی جنگ بنانا چاہتے ہیں لیکن اگر سرزمین عرب کو میدان جنگ بنایا گیا تو پھر مسلمانوں کی کوئی چیز محفوط نہیں رہ سکے گی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ وہ اسلام دشمن طاقتیں جو دنیا کو تباہ کرنا چاہتی ہیں اور مسلمانوں پر زمین تنگ کردینے کے درپے ہیں وہ چاہتی ہیں کہ اس جنگ کو عالمی جنگ بنادیا جائے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل فلسطین میں قتل عام اور نسل کشی کر رہا ہے: ترک اسپیکرِ اسمبلی

ملک میں ہر طرح کی فرقہ پرستی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے صاف لفظوں میں کہاکہ مسلم فرقہ پرستی ہویا ہندوفرقہ پرستی جمعیۃعلماء ہند ہر طر ح کی فرقہ پرستی کے خلاف ہے کیونکہ یہ ملک کے اتحاد کے لئے تباہ کن ہے۔ آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد جب مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی بعض لوگوں کی جانب سازش شروع ہوئی تو اس کے خلاف اٹھنے والی پہلی آواز جمعیۃ علماء ہند کی تھی، ہمارے بزرگوں کا نظریہ یہ تھا کہ جب ہم تیرہ چودہ سوبرس سے محبت اور اخوت کے ساتھ ایک جگہ رہتے آئے ہیں تو اب آزادی کے بعد ہم ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کا نظریہ آج بھی یہی ہے ہم مذہب کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی تقسیم کے خلاف ہیں کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ محبت، اخوت بھائی چارہ اور اتحاد سے ہی یہ ملک زندہ رہ سکتا ہے اور آگے بڑھ سکتا ہے ورنہ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ تباہ و برباد ہوجائے گا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ جمعیۃعلما ء ہند کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے ایک مذہبی جماعت ہے جب ملک کو آزادکرانے کا مسئلہ تھا تو ہمارے اکابرین نے اس کے لئے سردھرکی بازی لگادی 1803 سے 2019تک علمانے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر غلامی کی زنجیروں کو کانٹنے کا کام کیا بعد میں جب شیخ الہندؒ مالٹاکی جیل سے باہر آئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ ملک کی آزادی کا مشن تنہا مسلمانوں کی جدوجہد سے پورا نہیں ہوسکتا اس کے لئے آزادی کی تحریک کو ہندومسلم کی تحریک بنانی پڑے گی چنانچہ ہمارے اکابرین ہندومسلم اتحادکی راہ پر آگے بڑھے اور ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرالیا اسی موقع پر ہمارے اکابرین نے اعلان کیا کہ ہمارا مقصد ملک کو غلامی سے آزاد کرانا تھا ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے دستور نے شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ جینے کا حق دیا اور جمعیۃ علماء ہند نے بھی اسے اپنے دستور کا حصہ بنالیا۔ انہوں نے کہا کہ اکابرین کا کردار و عمل ہمارے لئے مشعل راہ ہے، اور اس کو ہمیں حرزجاں بنالینا چاہئے ہم گھر گھر گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ شہرشہر، قریہ، قریہ، کھیت کھیت جائیں اور جمعیۃعلماء ہند کے اس بنیادی اصول کو پہنچائیں کہ اخوت، ہمدردی ہی وہ پتوار ہے جو ملک کی کشتی کو ساحل سے لگاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دستور نے شہریوں کو جو حقوق اور اختیارات دیئے فرقہ پرستوں کی ٹولی نے اسے آگ لگادی ہے، جمہوریت اورسیکولرزم کی روایت کو ختم کرنے کی در پردہ سازشیں ہورہی ہیں، جس سے صورتحال انتہائی دھماکہ خیز ہورہی ہے، صبر و تحمل اور رواداری کے جذبہ دلوں سے ختم ہوچکے ہیں یہاں تک کہ فرقہ پرستی اب اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب ہر بات کو فرقہ پرستی کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے، اگر دو گاڑیوں میں ٹکر ہوجائے تو اب ملک میں اسی معمولی بات پر قتل ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کے دوران ہم نے اس بات کو خصوصیت کے ساتھ اٹھایا تھا اور ان سے پوچھا تھا کہ آخر کس طاقت نے لوگوں میں اس طرح کا تعصب اور نفرت بھردیا ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اسے روکا نہیں گیا تو ملک تباہ ہوجائے گا مگر اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

اجلاس میں ارتداد کے فتنہ پر بھی مولانا مدنی نے تفصیل سے گفتگو کی اور کہا کہ اس کی بنیادی وجہ مخلوق تعلیم ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مسلم لڑکا کسی غیر مسلم لڑکی سے ناجائز تعلق رکھتا ہے تو اسلام اس کو لعنت سمجھتا ہے، جہاں تک ہندومذہب کی بات ہے تو ان کے یہاں ذات پات کا تصور بہت مضبوط ہے، مسلمانوں میں ایسا نہیں ہے لیکن ان کے یہاں ایک برادری کی دوسری برادری میں شادی نہیں ہوسکتی، مگر اس کے باوجود حالیہ دنوں میں مسلم لڑکیوں سے شادیوں کے افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بلاسبب نہیں ہے بلکہ فرقہ پرستوں کاایک ٹولہ منظم طورپر اس کی پشت پناہی کررہا ہے کہ مسلم بچیوں کو مرتد بنایا جائے۔

مزید پڑھیں: فلسطینیوں کے مضبوط ایمان سے متاثر ہو کر امریکی ٹک ٹاکر نے اسلام قبول کر لیا

انہوں نے کہا کہ اس کے سدباب کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے الگ الگ اسکول قائم کریں جہاں ہمارے بچے بچیاں مذہبی اوراسلامی ماحول میں رہ کر تعلیم حاصل کرسکیں۔ مدرسے اسلام کے وجودکے لئے ضروری ہے لیکن ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ اگر ایسا کیا گیا توپھر وہ ملک کے قومی دھارے سے کٹ جائیں گے، مدنی ہائی اسکول کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اسے انٹرکالج بنائیں گے ہماراپروگرام یہاں ایک لاء کالج قائم کرنے کا بھی ہے جہاں ہندومسلم کی تفریق کئے بغیر میرٹ والے بچوں کو مفت قانون کی تعلیم مہیاکی جائے گی۔

یو این آئی

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ریاست اترپردیش کے سہانپور دیوبند کے مدنی ہائی اسکول میں جمعیۃ علماء اترپردیش کی مجلس منتظمہ کے ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے عوام اپنے ملک کے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور یہ جنگ ایک دو دن میں نہیں جیتی جاسکتی بلکہ اس کے لئے اسی طرح مسلسل قربانیاں دینی پڑے گی جس طرح ہم نے اپنے ملک کی آزادی کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہی لوگ اول جلول باتیں کرتے ہیں جو فلسطین کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ایک سازش کے تحت امریکہ، برطانیہ اور دوسری طاقتوں نے یہودیوں کو وہاں لاکر آباد کیا۔

انہوں نے آگے کہا کہ فرقہ پرستی نے حیرت انگیز طورپر عالمی شکل اختیار کرلی ہے اس کا افسوس ناک نظارہ اس جنگ میں دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جب مجبور و بے بس فلسطین کے عوام کے خلاف یہودی اور تمام عیسائی ممالک نہ صرف متحد ہوچکے ہیں بلکہ کھل کر اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں۔ بعض لوگ اسے عالمی جنگ بنانا چاہتے ہیں لیکن اگر سرزمین عرب کو میدان جنگ بنایا گیا تو پھر مسلمانوں کی کوئی چیز محفوط نہیں رہ سکے گی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ وہ اسلام دشمن طاقتیں جو دنیا کو تباہ کرنا چاہتی ہیں اور مسلمانوں پر زمین تنگ کردینے کے درپے ہیں وہ چاہتی ہیں کہ اس جنگ کو عالمی جنگ بنادیا جائے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل فلسطین میں قتل عام اور نسل کشی کر رہا ہے: ترک اسپیکرِ اسمبلی

ملک میں ہر طرح کی فرقہ پرستی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے صاف لفظوں میں کہاکہ مسلم فرقہ پرستی ہویا ہندوفرقہ پرستی جمعیۃعلماء ہند ہر طر ح کی فرقہ پرستی کے خلاف ہے کیونکہ یہ ملک کے اتحاد کے لئے تباہ کن ہے۔ آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد جب مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی بعض لوگوں کی جانب سازش شروع ہوئی تو اس کے خلاف اٹھنے والی پہلی آواز جمعیۃ علماء ہند کی تھی، ہمارے بزرگوں کا نظریہ یہ تھا کہ جب ہم تیرہ چودہ سوبرس سے محبت اور اخوت کے ساتھ ایک جگہ رہتے آئے ہیں تو اب آزادی کے بعد ہم ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کا نظریہ آج بھی یہی ہے ہم مذہب کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی تقسیم کے خلاف ہیں کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ محبت، اخوت بھائی چارہ اور اتحاد سے ہی یہ ملک زندہ رہ سکتا ہے اور آگے بڑھ سکتا ہے ورنہ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ تباہ و برباد ہوجائے گا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ جمعیۃعلما ء ہند کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے ایک مذہبی جماعت ہے جب ملک کو آزادکرانے کا مسئلہ تھا تو ہمارے اکابرین نے اس کے لئے سردھرکی بازی لگادی 1803 سے 2019تک علمانے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر غلامی کی زنجیروں کو کانٹنے کا کام کیا بعد میں جب شیخ الہندؒ مالٹاکی جیل سے باہر آئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ ملک کی آزادی کا مشن تنہا مسلمانوں کی جدوجہد سے پورا نہیں ہوسکتا اس کے لئے آزادی کی تحریک کو ہندومسلم کی تحریک بنانی پڑے گی چنانچہ ہمارے اکابرین ہندومسلم اتحادکی راہ پر آگے بڑھے اور ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرالیا اسی موقع پر ہمارے اکابرین نے اعلان کیا کہ ہمارا مقصد ملک کو غلامی سے آزاد کرانا تھا ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے دستور نے شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ جینے کا حق دیا اور جمعیۃ علماء ہند نے بھی اسے اپنے دستور کا حصہ بنالیا۔ انہوں نے کہا کہ اکابرین کا کردار و عمل ہمارے لئے مشعل راہ ہے، اور اس کو ہمیں حرزجاں بنالینا چاہئے ہم گھر گھر گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ شہرشہر، قریہ، قریہ، کھیت کھیت جائیں اور جمعیۃعلماء ہند کے اس بنیادی اصول کو پہنچائیں کہ اخوت، ہمدردی ہی وہ پتوار ہے جو ملک کی کشتی کو ساحل سے لگاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دستور نے شہریوں کو جو حقوق اور اختیارات دیئے فرقہ پرستوں کی ٹولی نے اسے آگ لگادی ہے، جمہوریت اورسیکولرزم کی روایت کو ختم کرنے کی در پردہ سازشیں ہورہی ہیں، جس سے صورتحال انتہائی دھماکہ خیز ہورہی ہے، صبر و تحمل اور رواداری کے جذبہ دلوں سے ختم ہوچکے ہیں یہاں تک کہ فرقہ پرستی اب اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب ہر بات کو فرقہ پرستی کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے، اگر دو گاڑیوں میں ٹکر ہوجائے تو اب ملک میں اسی معمولی بات پر قتل ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کے دوران ہم نے اس بات کو خصوصیت کے ساتھ اٹھایا تھا اور ان سے پوچھا تھا کہ آخر کس طاقت نے لوگوں میں اس طرح کا تعصب اور نفرت بھردیا ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اسے روکا نہیں گیا تو ملک تباہ ہوجائے گا مگر اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

اجلاس میں ارتداد کے فتنہ پر بھی مولانا مدنی نے تفصیل سے گفتگو کی اور کہا کہ اس کی بنیادی وجہ مخلوق تعلیم ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مسلم لڑکا کسی غیر مسلم لڑکی سے ناجائز تعلق رکھتا ہے تو اسلام اس کو لعنت سمجھتا ہے، جہاں تک ہندومذہب کی بات ہے تو ان کے یہاں ذات پات کا تصور بہت مضبوط ہے، مسلمانوں میں ایسا نہیں ہے لیکن ان کے یہاں ایک برادری کی دوسری برادری میں شادی نہیں ہوسکتی، مگر اس کے باوجود حالیہ دنوں میں مسلم لڑکیوں سے شادیوں کے افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بلاسبب نہیں ہے بلکہ فرقہ پرستوں کاایک ٹولہ منظم طورپر اس کی پشت پناہی کررہا ہے کہ مسلم بچیوں کو مرتد بنایا جائے۔

مزید پڑھیں: فلسطینیوں کے مضبوط ایمان سے متاثر ہو کر امریکی ٹک ٹاکر نے اسلام قبول کر لیا

انہوں نے کہا کہ اس کے سدباب کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے الگ الگ اسکول قائم کریں جہاں ہمارے بچے بچیاں مذہبی اوراسلامی ماحول میں رہ کر تعلیم حاصل کرسکیں۔ مدرسے اسلام کے وجودکے لئے ضروری ہے لیکن ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ اگر ایسا کیا گیا توپھر وہ ملک کے قومی دھارے سے کٹ جائیں گے، مدنی ہائی اسکول کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اسے انٹرکالج بنائیں گے ہماراپروگرام یہاں ایک لاء کالج قائم کرنے کا بھی ہے جہاں ہندومسلم کی تفریق کئے بغیر میرٹ والے بچوں کو مفت قانون کی تعلیم مہیاکی جائے گی۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.