ETV Bharat / state

شمس الرحمٰن فاروقی کے انتقال پر ان کے آبائی گاؤں سے گراؤنڈ رپورٹ

author img

By

Published : Dec 26, 2020, 7:03 PM IST

Updated : Dec 26, 2020, 8:55 PM IST

اردو ادب کی معروف ترین شخصیات میں سے ایک پدم شری شمس الرحمن فاروقی کا مئو ضلع سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ مئو کا یہ وہی خطہ ہے جسے مردم خیز خطے کا اعزاز حاصل ہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی
شمس الرحمٰن فاروقی

مرحوم شمس الرحمن فاروقی کا آبائی وطن مئو ضلع کا قصبہ کوئیریاپار ہے۔ پہلے یہ اعظم گڈھ ضلع کا حصہ تھا۔ سنہ 1989 میں مئو کو ضلع بنا دیا گیا اور کوئیریاپار مئو ضلع کی ایک گاؤں کا پنچایت بن گیا۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے چند اہل خانہ آج بھی کوئیریاپار میں مقیم ہیں۔ مرحوم شمس الرحمن فاروقی صاحب کے چچازاد بھائی کمال فاروقی کوئیریاپار میں ہی مقیم ہیں۔ وہ اپنے برادر محترم کے انتقال کی خبر سے بے حد غمزدہ ہیں۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ
شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ

جسمانی طورپر معذور کمال فاروقی مقامی انٹرمیڈیٹ کالج میں میتھ میٹکس (ریاضی) کے لیکچرار رہے ہیں۔ وہ گاؤں کے پردھان بھی رہ چکے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے انتقال کا ان پر خاصہ اثر ہے۔ شمس الرحمن صاحب کے ساتھ گزارے گئے لمحات کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔شمس الرحمن فاروقی صاحب کے بھتیجے اور آلہ آباد ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ ضیاء الدین فاروقی کے مطابق شمس الرحمن فاروقی صاحب کی کوئیریاپار آمد پر یہاں ادبی نشستوں کا انعقاد ہوتا تھا۔ یہ طرحی نشستیں اردو زباں و ادب کے فروغ کا پلیٹ فارم رہی ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب UPSC امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد الائیڈ آئی اے ایس بنے۔ وہ اترپردیش کے چیف پوسٹ ماسٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں ۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ
شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ

بلاشبہ فاروقی صاحب کے مرحوم ہونے سے اردو دنیا کو جو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی مستقبل قریب میں تو مشکل ہے۔ ایک ایسا شخص جس کا باضابطہ اردو ادب سے نہ تو کبھی واسطہ رہا نہ رابطہ۔ لیکن جب انہوں نے اردو زبان و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو اپنے زمانے کے سب سے بڑے نقاد اور افسانہ نگار قرار پائے۔ باریک بینی اور ادب شناسی میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اردو ادب میں جو وراثت انہوں نے چھوڑی ہے وہ زمانہ طویل تک اردو کے بہی خواہوں کو سیراب کرتی رہے گی۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ
شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ


واقعہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ انہیں یکجا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ فاروقی صاحب انتہائی با اصول، وقت کے پابند اور وسیع المطالعہ شخص تھے۔ مختلف موضوعات پر کتابیں حاصل کرنا، انھیں پڑھنا اور جو کچھ پڑھا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا ان کی فطرت ثانیہ رہی۔

ڈاک خانہ کی شاندار ملازمت، شب خون کی اشاعت، اندرون وطن اور بیرون وطن کے اسفار نیز ان کی کتابوں، تقریروں، علمی وادبی لکچرز اور عظیم شخصیتوں سے میل جول کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ قریبی اعزہ سے لے کر دور دراز رہنے والے صاحبانِ ذوق بھی ان کے مداح اور قصیدہ خواں ہیں۔

شمس الرحمٰن فاروقی
شمس الرحمٰن فاروقی

شمس الرحمٰن فاروقی نے امریکہ کی پنسلوینیا یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشا ریجنل اسٹڈیز سینٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ وہ الہ آباد میں ’شب خوں‘ میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی کو اردو میں تنقید نگاری کا ماہر قرار دیا جاتا تھا۔ انہیں ’سرسوتی ایوارڈ‘ کے علاوہ سنہ 1986 میں اردو کے لئے ’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔ میر تقی میر پر ان کی شہرہ آفاق کتاب 'شعر شور انگیز' چار جلدوں میں شائع ہوئیں۔ تفہیم غالب، تعبیر کی شرح، انداز گفتگو کیا ہے؟، اردو کا ابتدائی زمانہ، درس بلاغت، اردو غزل، اشارات و نفی، تنقیدی افکار، خورشید کا سامان سفر، کئی چاند تھے سر آسماں، لغات روزہ مرہ اور تضمین اللغات، شمس الرحمان فاروقی کی مشہور ترین تخلیقات میں شامل ہیں۔

ان کے افسانوں کا مجموعہ سوار اور ان کا ضخیم ناول 'کئی چاند تھے سر آسمان' کا ترجمہ دنیا کی کئی اہم زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اور ان تصنیفات کو اردو ادب میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کو ان کی زندگی میں جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ بہت کم اردو ادیبوں کو نصیب ہوئی ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے ان کو 'پدم شری' کا اعزاز ملا۔ اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ان کی گراں قدر خدمات کے لئے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ

شمس الرحمان فاروقی کو ملک کا سب سے بڑا ادبی اعزاز سرسوتی سمان، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ، مختلف اردو اکیڈمیوں کی طرف سے ایوارڈز سے نواز گیا۔ شمس الرحمان فاروقی قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر بھی رہے لیکن شمس الرحمان فاروقی کو شہرت ان کی اردو خدمات کی وجہ سے ملی۔

یہ بھی پڑھیں:'شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کا قابل فخر کردار'

شمس الرحمان فاروقی نے ملازمت میں رہتے ہوئے بھی اردو زبان ادب کی بے مثال خدمات انجام دیں۔ انہوں نے تمام تر مصروفیات کے با وجود تین درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور سینکڑوں مقالے اور مضامین لکھے۔

مرحوم شمس الرحمن فاروقی کا آبائی وطن مئو ضلع کا قصبہ کوئیریاپار ہے۔ پہلے یہ اعظم گڈھ ضلع کا حصہ تھا۔ سنہ 1989 میں مئو کو ضلع بنا دیا گیا اور کوئیریاپار مئو ضلع کی ایک گاؤں کا پنچایت بن گیا۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے چند اہل خانہ آج بھی کوئیریاپار میں مقیم ہیں۔ مرحوم شمس الرحمن فاروقی صاحب کے چچازاد بھائی کمال فاروقی کوئیریاپار میں ہی مقیم ہیں۔ وہ اپنے برادر محترم کے انتقال کی خبر سے بے حد غمزدہ ہیں۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ
شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ

جسمانی طورپر معذور کمال فاروقی مقامی انٹرمیڈیٹ کالج میں میتھ میٹکس (ریاضی) کے لیکچرار رہے ہیں۔ وہ گاؤں کے پردھان بھی رہ چکے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے انتقال کا ان پر خاصہ اثر ہے۔ شمس الرحمن صاحب کے ساتھ گزارے گئے لمحات کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔شمس الرحمن فاروقی صاحب کے بھتیجے اور آلہ آباد ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ ضیاء الدین فاروقی کے مطابق شمس الرحمن فاروقی صاحب کی کوئیریاپار آمد پر یہاں ادبی نشستوں کا انعقاد ہوتا تھا۔ یہ طرحی نشستیں اردو زباں و ادب کے فروغ کا پلیٹ فارم رہی ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب UPSC امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد الائیڈ آئی اے ایس بنے۔ وہ اترپردیش کے چیف پوسٹ ماسٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں ۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ
شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ

بلاشبہ فاروقی صاحب کے مرحوم ہونے سے اردو دنیا کو جو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی مستقبل قریب میں تو مشکل ہے۔ ایک ایسا شخص جس کا باضابطہ اردو ادب سے نہ تو کبھی واسطہ رہا نہ رابطہ۔ لیکن جب انہوں نے اردو زبان و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو اپنے زمانے کے سب سے بڑے نقاد اور افسانہ نگار قرار پائے۔ باریک بینی اور ادب شناسی میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اردو ادب میں جو وراثت انہوں نے چھوڑی ہے وہ زمانہ طویل تک اردو کے بہی خواہوں کو سیراب کرتی رہے گی۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ
شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ


واقعہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ انہیں یکجا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ فاروقی صاحب انتہائی با اصول، وقت کے پابند اور وسیع المطالعہ شخص تھے۔ مختلف موضوعات پر کتابیں حاصل کرنا، انھیں پڑھنا اور جو کچھ پڑھا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا ان کی فطرت ثانیہ رہی۔

ڈاک خانہ کی شاندار ملازمت، شب خون کی اشاعت، اندرون وطن اور بیرون وطن کے اسفار نیز ان کی کتابوں، تقریروں، علمی وادبی لکچرز اور عظیم شخصیتوں سے میل جول کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ قریبی اعزہ سے لے کر دور دراز رہنے والے صاحبانِ ذوق بھی ان کے مداح اور قصیدہ خواں ہیں۔

شمس الرحمٰن فاروقی
شمس الرحمٰن فاروقی

شمس الرحمٰن فاروقی نے امریکہ کی پنسلوینیا یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشا ریجنل اسٹڈیز سینٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ وہ الہ آباد میں ’شب خوں‘ میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی کو اردو میں تنقید نگاری کا ماہر قرار دیا جاتا تھا۔ انہیں ’سرسوتی ایوارڈ‘ کے علاوہ سنہ 1986 میں اردو کے لئے ’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔ میر تقی میر پر ان کی شہرہ آفاق کتاب 'شعر شور انگیز' چار جلدوں میں شائع ہوئیں۔ تفہیم غالب، تعبیر کی شرح، انداز گفتگو کیا ہے؟، اردو کا ابتدائی زمانہ، درس بلاغت، اردو غزل، اشارات و نفی، تنقیدی افکار، خورشید کا سامان سفر، کئی چاند تھے سر آسماں، لغات روزہ مرہ اور تضمین اللغات، شمس الرحمان فاروقی کی مشہور ترین تخلیقات میں شامل ہیں۔

ان کے افسانوں کا مجموعہ سوار اور ان کا ضخیم ناول 'کئی چاند تھے سر آسمان' کا ترجمہ دنیا کی کئی اہم زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اور ان تصنیفات کو اردو ادب میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کو ان کی زندگی میں جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ بہت کم اردو ادیبوں کو نصیب ہوئی ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے ان کو 'پدم شری' کا اعزاز ملا۔ اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ان کی گراں قدر خدمات کے لئے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔

شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال پرملال: گراؤنڈ رپورٹ

شمس الرحمان فاروقی کو ملک کا سب سے بڑا ادبی اعزاز سرسوتی سمان، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ، مختلف اردو اکیڈمیوں کی طرف سے ایوارڈز سے نواز گیا۔ شمس الرحمان فاروقی قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر بھی رہے لیکن شمس الرحمان فاروقی کو شہرت ان کی اردو خدمات کی وجہ سے ملی۔

یہ بھی پڑھیں:'شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کا قابل فخر کردار'

شمس الرحمان فاروقی نے ملازمت میں رہتے ہوئے بھی اردو زبان ادب کی بے مثال خدمات انجام دیں۔ انہوں نے تمام تر مصروفیات کے با وجود تین درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور سینکڑوں مقالے اور مضامین لکھے۔

Last Updated : Dec 26, 2020, 8:55 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.