لکھنؤ: اتوار کے روز لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں گیان واپی مسجد تنازعہ، یونیفارم سیول کوڈ کے بشمول مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں یکساں سیول کوڈ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد بورڈ نے کہا کہ تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔ یونیفارم سیول کوڈ کے نفاذ کی بات کرنا دستور کی جانب سے دیے گئے شہریوں کے اختیارات اور حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بورڈ نے کہا کہ یونیفارم سیول کوڈ ہندوستان جیسے ہمہ مذہبی، ہمہ لسانی اور ہمہ تہذیبی ملک سے نہ تو مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی فائدہ مند ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے تمام سے اپیل کی ہے کہ وہ مذہبی آزادی اور پرسنل لا کا تحفظ کرے۔
یہ بھی پڑھیں:
بورڈ نے کہا کہ قومی مفاد میں مذہبی مقامات کے قانون 1992ء کی پابندی کی جانی چاہیے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے عدالتوں پر زور دیا کہ وہ اقلیتوں اور کمزور طبقات پر مظالم کا نوٹ لیں کیونکہ عدلیہ ہی تمام شہریوں کی آخری امید ہوتی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے قانونی کارروائی سے قبل ملزمین کو مکانات کے انہدام پر بھی شدید اعتراض کیا۔ اجلاس میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور غریب اور مسلمانوں کی تعلیم کے علاوہ خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے، سماجی زندگی میں ان کی حصہ داری میں اضافہ کے لیے وقف املاک کے استعمال پر بھی غور وخوض کیا گیا۔ اجلاس میں صدر مجلس اتحاد المسلمین اسدالدین اویسی نے بھی شرکت کی۔ بورڈ کے ارکان مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے بتایا کہ تبدیلیٔ مذہب کے بشمول گیان واپی مسجد کے مقدمہ پر بھی بات چیت کی گئی۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے 51 ایگزیکیٹیو ارکان ہیں جن میں صدر مجلس اسدالدین اویسی بھی شامل ہیں۔ یہاں یہ تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ حالیہ عرصہ میں ملک میں تبدیلیٔ مذہب کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کرنے واقعات پیش آچکے ہیں جب کہ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کے لیے حکومت کے اقدامات مناسب نہیں ہیں۔ ملک کے بعض حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے۔ کرناٹک ریاست کے بعض مقامات پر مسلم تاجروں کو منادر کے آس پاس کاروبار یا تجارت کرنے سے روکنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ان واقعات کے پیش نظر مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایگزیکیٹیو اجلاس اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔