علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے یونیورسٹی کے طلبہ کے نام جاری ایک مکتوب میں کہا ہے کہ 'وہ کیمپس میں تعطیلات کے بعد طلبہ کی واپسی کا منتظر ہہیں۔ اور طلبہ کے مفاد کے امور پر ان سے گفت و شنید کے لیے تیار ہیں۔'
وائس چانسلر نے طلبہ سے اپیل کی ہے کہ 'وہ طویل مدتی مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی کو پرامن طریقہ سے چلانے میں ان کی مدد کرے اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی باتوں پر یقین نہ کریں جو چند ایسے لوگ پھیلا رہے ہیں جنہیں گزشتہ دنوں پیش آنے والے واقعات کے حقائق کا صحیح علم نہیں ہے۔'
وائس چانسلر نے اپنے مکتوب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے عظیم تاریخی وراثت کی یاد دلاتے ہوئے طلبہ سے کہا ہے کہ 'انہیں کسی بھی ایسے قانون کے خلاف جمہوری انداز میں پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے جسے وہ قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'یونیورسٹی انتظامیہ اور وہ خود طلبہ کے حقوق پر قدغن لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے کیوں کہ ایک مضبوط جمہوریت اپنے شہریوں کی متحرک حصہ داری پر منحصر ہوتی ہے، خاص طور سے ایسے نوجوانوں پر جو ملک کے مستقبل ہوں۔'
پروفیسر طارق منصور نے طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'جب آپ چھٹیوں سے واپس لوٹیں گے تو میں بطور وائس چانسلر کیمپس میں آپ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم اور محبت و احترام کے ساتھ تعلیمی سال کو پر سکون انداز میں مکمل کرنے میں آپ کا تعاون چاہتا ہوں۔'
اے ایم یو شعبہ رابطہ عامہ کے ممبران انچارج پروفیسر شافع قدوئی نے بتایا کہ 'وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے طلبہ کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا اے ایم یو میں جمہوری احتجاج جو ہورہا ہے وہ سی اے اے کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن 15 دسمبر کی رات تشدد میں جس کے لیے پولیس کو بلایا گیا اس کا بنیادی مقصد یونیورسٹی وائس چانسلر اور باب سید کے درمیان بھیڑ کو ہٹانا تھا۔ پولیس نے جو غلط کیا اس کی جانچ اے ایم یو کرا رہی ہے جو بھی قصور وار ہو گا اس کے خلاف ایکشن لیا جائیگا اور جو بھی بے گناہ بچے ہیں ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔'
پروفیسر شافع قدوائی نے مزید بتایا کہ 'وائس چانسلر کا دو صفحات کا خط ہے جس میں کافی باتوں کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کیسے یونیورسٹی کھلے گی اور جب یونیورسٹی کھلے گی تو کیسے جو طلبہ آئیں گے ان کو کس طرح سے رہنا ہے اور بتایا ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اے ایم یو کے طلبہ کس پس منظر سے آتے ہیں ان کے کسی بھی طرح کے نقصان کی بھرپائی نہیں ہو پائے گی اور جو بھی اے ایم یو فیصلہ لیگا وہ طلبہ کے مفاد میں ہوگا۔'