گذشتہ روز 24 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 15 دسمبر 2019 کی شب میں پیش آئے واقعہ سے متعلق قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) کی رپورٹ پر سماعت ہوئی۔
اے ایم یو کے سابق طالب علم محمد عامر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ 'اے ایم یو 15 دسمبر کے تشدد کے خلاف 3 ریٹس داخل کی، ایک امان وکیل، دوسری سلمان امتیاز سابق صدر طلبا یونین اور تیسری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کوآرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے یہ عرضیاں دائر کی گئیں جس پر کل الہ آباد ہائی کورٹ جج نے قومی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کو مانتے ہوئے اس کو آگے بڑھا دیا ہے اور اس پر سماعت 25 مارچ کو متوقع ہے۔'
قومی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں ایک تو یہ چیز مانی ہے کہ اس میں چھ یونیورسٹی طلبا کو معاوضہ دیا جائے اور دوسری چیز یہ ہے کہ کورٹ نے پولیس کے ذریعے کی گئی زیادتی خاص طور سے جو پولیس نے طلبا کی بائک کو توڑنے کو غیر قانونی بتایا ان کی شناخت کے بعد ان کے اوپر ایکشن لینے کا فیصلہ سنایا ہے اور طلبا کو معاوضہ دینے کی بات کی گئی ہے۔
کورٹ نے یہ بھی مانا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبا کے بیچ جو خلا ہے اس کو بھرا جائے، کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس خلا کو بھرنے کے لیے ایکشن لینا چاہیے۔
محمد عامر نے مزید بتایا کہ کورٹ نے یہ مانا ہے جو ہم پہلے سے کہتے آرہے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی ڈکٹیٹر شپ چل رہی ہے کورٹ نے یہ مانا ہے کہ یونیورسٹی طلبا اور انتظامیہ کے بیچ میں خلا ہے ہم کورٹ کے فیصلے کا استقبال کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا یہ کوئی آخری فیصلہ نہیں ہے نہ ہماری لڑائی ابھی ختم ہوئی ہے اصل لڑائی ابھی شروع ہوئی ہے یہ تو قومی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ جس کو کورٹ نے آگے بڑھا دیا ہے۔ اصل لڑائی 25 مارچ سے شروع ہوگی ۔ صرف چھ طلبا زخمی نہیں تھے تقریبا 30 طلبا زخمی ہوئے تھے اور 26 طلبا کو حراست میں لیا گیا تھا، وہ سب زخمی تھے۔
صرف چھ طلبا زخمی تھے انہی کو معاوضہ دیا جائے ہم اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں پھر بھی وقتی طور پر جو بھی الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ہے اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
کم سے کم کورٹ نے اس کو مان لیا کہ پولیس نے یونیورسٹی طلبا کے اوپر زیادتی کی تھی جو بھی ایکشن لیا گیا تھا وہ غیر قانونی تھا اور ریاست کو یہ ہدایت دی ہے کہ ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔
اب ہماری یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ وہ الگ الگ مقدمات درج کرے ایک تو موریسن کوٹ کے گیٹ کیپر کو پولیس نے مارا تھا جو اس وقت نوکری پر تھا، جو کمرے کے اندر پولیس نے آنسو گیس کے گولے استعمال کیے اس کے خلاف ایف آی آر درج ہونی چاہیے اور جو ایمبولینس کو توڑا گیا اس کے خلاف بھی ایف آئی آر ہونی چاہیے یہ سب چیزیں بھی آگے بڑھنے چاہیے اور ہمیں امید ہے آگے بڑھیں گی۔
محمد عامر نے مزید بتایا یونیورسٹی باب سید پر گذشتہ تین دن سے ریلے بھوک ہڑتال بھی جاری ہے جس کا مقصد 15 دسمبر کے تشدد میں جو لوگ ذمہ دار ہیں جو بھی لوگ اس میں شامل ہے ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ جو ابھی تک کسی طرح کا ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ یونیورسٹی طلبا کا کہنا ہے جب تک ہمارے مطالبات کو پورے نہیں کیے جائیں گے ہماری ریلے بھوک ہڑتال جاری رہے گی۔
انہوں نے بتایا ہم دو روز قبل اوپر کوٹ کے علاقے کی جامع مسجد کے قریب پیش آئے واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ بھی کریں گے انہوں نے کہا جو بھی کچھ ہوا اس میں جو بھی ذمہ دار لوگ ہیں ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔