انہوں نے آج یہاں جاری تعزیتی بیان میں کہا کہ وہ دار العلوم دیوبند کے ممتاز اور ذہین طالب علم رہے تھے اور اردو شعر و ادب کا ذوق پیدا کرنے میں دیوبند کے اساتذہ خصوصا مولانا انظر شاہ کشمیریؒ نے اہم رول ادا کیا تھا، جس کا اعتراف اپنی تحریروں میں انھوں نے خود کیا ہے۔
ابو الکلام قاسمی کو ماہر غالبیات میں شمار کیا جاتا تھا اور غالب کے شعری اسرار و رموز سے واقف کرانے میں مولانا انظر شاہ نے اہم اور کلیدی رول ادا کیا تھا، جن سے انھوں نے دیوان غالب سبق در سبق پڑھا تھا۔
مولانا قاسمی نے کہا کہ وہ ادب میں منفرد دانش ور ناقد شمار کیے جاتے تھے اور اپنی تحریروں کی گہرائی اور اپنے وسعت مطالعہ کی وجہ سے اردو دنیا میں امتیازی شناخت کے حامل تھے۔ ان کی تنقیدی تحریروں میں معروضیت اور منطقیت کی روشنی ملتی ہے۔انھوں نے دینی علوم اور عربی فارسی کے ساتھ مغربی اور عصری علوم بھی حاصل کیے تھے، اس لیے ان کے یہاں مشرق و مغرب یا قدیم و جدید کا جو حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے، وہ ان کے معاصرین میں مفقود تھا۔
انھوں نے کہا کہ اردو تنقید کو اپنی اساس اور اپنی بنیاد سے آشنا کرانے کا کارنامہ قاسمی نے ہی انجام دیا ہے۔ وہ مشرقی شعری روایات سے آگاہ و باخبر ایک نظریہ ساز اور رجحان پرور ناقد مانے جاتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ابتدا میں شعر و شاعری بھی کی، مگر وہ نثر اور تنقید نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اورکل وقتی ناقد کے طور پر مشہور و متعارف ہوئے، انھیں تنقیدی کتاب پر ہی اردو زبان کے نمایاں ترین اعزاز ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔ انھیں ملک کے دوسرے تمام اہم اعزازات اور ریاستی اردو اکادمیوں کے اہم انعامات بھی حاصل ہوچکے ہیں۔
قاسمی صاحب نے کئی نامی گرامی اردو کے رسالوں کی ادارت اوراردو کی کئی نسل کی تربیت بھی کی ہے جو ان کے لیے ذخیرہئ آخرت ثابت ہوں گے۔
مزید پڑھیں: پروفیسر ابوالکلام قاسمی کا انتقال
تقریباً دو سو مضامین و مقالات پر ان کاتحریری تنقیدی سرمایہ مشتمل ہے۔ ”ناول کا فن“، ”معاصر تنقیدی رویے“، ”رشید احمد صدیقی‘ شخصیت اور ادبی قدر و قیمت“، ”مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت“، ”اردو فکشن:آزادی کے بعد“، ”شاعری کی تنقید“، ”نظریاتی تنقید:مسائل و مباحث“ اور’کثرت تعبیر‘ وغیرہ ان کے اہم تنقیدی اور تالفی کارنامے ہیں جن کے سبب وہ اردو ادب و تنقید کی دنیا میں جانے جائیں گے۔
یو این آئی۔