نیشنل فوڈ سیکیورٹی ایکٹ سستی قیمت پر مواقف غذائیت کی حامل اجناس کی فراہمی یقینی بنانے میں معاون ہے۔ تاہم حکومت کا خیال ہے کہ مخصوص مقدار میں غذائی اجناس فراہم کرنے کے نتیجے میں ہی فوڈ سیکیورٹی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ غذائی اجناس کے معیار کو نظر انداز کیے جانے کے نتیجے میں صحت عامہ کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت گذشتہ کئی برس سے بار بار متنبہ کرتا رہا ہے کہ ٹرانس فیٹی ایسڈ (ٹی ایف اے)، جو تیلِ خوردنی، وناسپتی اور مصنوعی مکھن میں استعمال کیا جاتا ہے، کے استعمال سے دُنیا بھر میں سالانہ ساڑھے پانچ لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے سنہ 2023 تک دُنیا کے تمام ممالک میں ٹرانس فیٹی ایسڈ کے استعمال پر پابندی لگانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ایف اے کے استعمال سے انسانی جسم کے اندر کولسٹرال جمع ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں مختلف بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں ’ری پلیس‘ یعنی ’بدلاو‘ کے عنوان کے تحت چھ نکاتی ایکشن پلان تجویز کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی طور پر تیار کردہ چربی کے حامل غذائی اشیا کو صحت بخش اجناس سے بدل دیا جائے۔ سنہ 2018 میں مرکزی حکومت نے تمام متعلقین کو عالمی ادارہ صحت کے اس ایکشن پلان کو عمل میں لانے کی ہدایات دی ہیں۔
ان ہدایات کو عمل میں لانے کے حوالے سے فوڈ سیکیورٹی آرگنائزیشن نے اس برس ٹرانس فیٹی ایسڈ کی کھپت کو تین فیصد تک کم کرنے اور اگلے برس اس میں مزید دو فیصد کی تخفیف کرنے کے لیے کہا ہے۔ سنہ 2011 میں حکومت نے تیل خوردنی اور دیگر غذائی اجناس میں ٹرانس فیٹی ایسڈ کی مقدار 10 فیصد تک کمی لانے کے لیے کہا تھا۔ لیکن سنہ 2015 تک صرف پانچ فیصد ٹرانس فیٹی ایسڈ کی مقدار کم کر دی گئی۔
ڈنمارک دُنیا کا پہلا ملک ہے، جس نے ٹرانس فیٹی ایسڈ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ نتیجے کے طور پر ڈنمارک میں عارضہ قلب کی وجوہات سے اموات میں یکسر کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جب ہم آرگنائزیشن آف اکونامک کواپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ سے جڑے ممالک میں دل کی بیماریوں سے ہونے والی اموات کا موازنہ کرتے ہیں تو ڈنمارک میں سب سے کم اموات دیکھنے کو ملتی ہیں۔
جب یہ واضح ہے کہ ٹرانس فیٹی ایسڈ کی کھپت میں مکمل پابندی کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ حکام اس کی کھپت کو مرحلہ وار طریقے سے کم کرنے کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس اروپ کمار گوسوامی کی حلف برداری
اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 77 ہزار سالانہ اموات ٹرانس فیٹی ایسڈ کے استعمال کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ گاہکوں سے متلعق ادارے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے ہیں کہ ٹرانس فیٹی ایسڈ دل کی بیماریوں، بلڈ پریشر، ذیابطس اور موٹاپے جیسی بیماریوں کا باعث ہے۔ بھارت پہلے ہی دُنیا کی ذیابطس دارالحکومت کے نام سے بدنام ہے۔
ملک کی 22 ریاستوں میں کیے گئے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ 19 ریاستوں میں مرد زیادہ تعداد میں موٹاپے کا شکار ہیں۔ بعض ریاستوں میں خواتین بھی مردوں ہی کی طرح موٹاپے کا شکار دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ چونکہ کووِڈ 19 کی وجہ سے اعصابی بیماریوں کا شکار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے، اس لیے صحت عامہ کو ترجیح دینا وقت کی ایک اہم ضرورت بن گیا ہے۔
ایک المناک صورت حال یہ ہے کہ بھارت اُن ممالک میں شامل ہے، جہاں بیک وقت غذائیت کی کمی بھی پائی جارہی ہے اور موٹاپا بھی۔ پھیلنے اور نہ پھیلنے والی دونوں طرح کی بیماریاں یہاں پائی جاتی ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں ہمارے ملک میں فوڈ سیفٹی کا معیار بہت ہی مضبوط ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ساڑھے اٹھائس فیصد غذائی اجناس یا تو غیر معیاری ہیں یا پھر مقررہ معیار کے عین مطابق نہیں ہیں۔ نیشنل فوڈ سٹنڈرڈز آرگنائزیشن کی ایک تحقیق کے مطابق یہ صورتحال دودھ سے بنی اشیا کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
سنہ 2018 میں ایک پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے انکشاف کیا کہ ہر برس لوگ غیر معیاری غذا کی وجہ سے پیدا ہونی والی بیماریوں کے علاج و معالجے پر ایک اشارعیہ اٹھتر کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں۔ فوڈ سٹنڈرڈ آرگنائزیشن نے ’معیاری کھاو اور کووِڈ سے لڑو‘ کا نعرہ دینے کے ساتھ ساتھ قوتِ مدافعت بڑھانے کے لیے بھی رہنما ہدایات جاری کر دی ہیں۔ تاہم اب اس ادارے کو اپنے کام کرنے کا طریقہ کار یکسر بدلنے کی ضرورت ہے۔ ایک صحت مند بھارت کا ہدف تب ہی پورا ہوسکتا ہے، جب یہ ادارہ ٹرانس فیٹی ایسڈ پر اگلے برس تک پابندی لگاتے ہوئے عوامی صحت عامہ اور فوڈ سیفٹی کے تئیں اپنی بھر پور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گا۔