جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر سے تعلق رکھنے والے جواں سال صحافی آصف سلطان کی رہائی کے متعلق صحافتی انجمنوں، سیول سوسائٹی کے علاوہ چار سو صحافیوں نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط تحریر کیا ہے۔
آصف سلطان کو اگست 2018 میں پولیس نے بٹہ مالو میں واقع انکی رہائش گاہ سے حراست میں لے کر سرینگر کے سنٹرل جیل میں قید کیا ہے اور وہ گزشتہ دو برس سے بدستور قید میں ہے۔
پولیس نے ان پر عسکریت پسندوں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرکے ان پر مختلف مقدمات درج کیے تھے، تاہم آصف سلطان کے اہل خانہ اور کشمیر میں صحافیوں نے کہا تھا کہ ’’آصف سلطان معصوم ہے اور انہیں اپنے فرائض منصبی انجام دینے پر گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘
ذرائع کے مطابق آصف سلطان نے مہلوک حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی پر ایک مقامی انگریزی جریدے میں ایک مفصل رپورٹ لکھی تھی جس کے بعد پولیس نے انکو عسکریت پسندوں کی معاونت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
دو برس سے آصف کے والدین انتظامیہ سے انکی رہائی کی اپیل کرتے آ رہے ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں عدالت کا بھی رجوع کیا ہے۔ تاہم آج دو برس بعد بھارت سمیت مختلف ممالک کے400 صحافیوں، مصنفوں اور دانشوروں اور صحافی انجمن سی پی جی نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر آصف سلطان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ ’’اگر ایک صحافی ذرائع کا حوالہ دیکر یا سرکار کی تنقید کرنے والے افراد کو انٹرویو لے تو یہ کوئی جرم نہیں ہے، یہ صحافی کے کام کے دائرے میں شامل ہے۔‘‘
انکا کہنا ہے کہ ’’کشمیر میں ہونے والے واقعات عوامی دلچسپی کے حامل ہیں اور انکو رپورٹ کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔‘‘
انکا مزید کہا ہے کہ صحافیوں کو پیشہ وارانہ خدمات دینے کی وجہ سے کوئی ہراسانی کا سامنا نہیں ہونا چاہیے، آزادی صحافت جمہوریت کا اہم جز ہے اور ہندوستان کی تاریخ اس آزادی پر فخر کر سکتی ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آئین کی دفعہ 19 کو مدنظر رکھتے ہوئے آزادی صحافت کے اقدار کو فروغ دینا چاہئے۔
انہوں عدالت عالیہ کی کووڈ19 کے پیش نظر دی ہوئی ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آصف سلطان کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
جن شخصیات نے یہ خط لکھا ہے ان میں دی ہندو اخبار کے این رام، مصنف مرزا وحید، ونود کے جوش، نریش فرنناڈیز، ڈاکٹر روس ہولڑ، پروفیسر نودیدتا منن، ہرش ماندر وغیرہ شامل ہیں۔