ETV Bharat / state

نریندر مودی سے میٹنگ کے بعد عمر عبداللہ نے کیا کہا

author img

By

Published : Jun 24, 2021, 9:12 PM IST

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے آل پارٹی میٹنگ کے بعد کہا کہ دفعہ 370 کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ ہم اپنا حق حاصل کرنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور ہم یہ آئینی طریقہ سے کر رہے ہیں۔ اس میں کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ

عمر عبداللہ نے کہا کہ 'ہم مین اسٹریم جماعت ہیں اور ہم انتخابی عمل میں شامل ہوں گے۔ اگر ملاقات کا سلسلہ جاری رہے تو جو بھروسہ کم کیا گیا ہے وہ کسی حد تک بحال ہو سکتا لیکن ہم سے کوئی یہ اُمید کرے کہ ایک میٹنگ میں سب ٹھیک ہوگا وہ غلط ہوگا۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ

انہوں نے کہا کہ 'حد بندی کی ضرورت نہیں تھی۔ آسام کی حد بندی کو روکا گیا لیکن جموں و کشمیر میں یہ سلسلہ جاری رکھا گیا۔ البتہ انہوں نے کہا کہ اس میٹنگ سے نئی شروعات ہوگی۔

عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ 'پاکستان کے ساتھ بات چیت پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور خبروں کے مطابق پاکستان سے بیک چینل سے بات چیت ہو رہی ہے۔ ہم بات چیت کا استقبال کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 19 جون کو 14 سیاسی رہنماؤں کو وزیراعظم کی جانب سے میٹنگ کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان رہنماؤں کا تعلق 8 سیاسی جماعتوں- نیشنل کانفرنس(این سی)، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی( پی ڈی پی)، بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی)، کانگریس، جموں و کشمیر اپنی پارٹی، سی پی آئی (ایم)، پیپلز کانفرنس اور پینتھرس پارٹی سے ہے۔

انہیں مرکزی داخلہ سکریٹری اجے بھلا نے میٹنگ میں شرکت کے لیے 19 جون کو ٹیلیفون کے ذریعے کہا تھا۔ بعد میں انہیں باضابطہ دعوت نامے بھی روانہ کئے گئے۔ سبھی رہنماؤں نے کسی شرط کے بغیر اجلاس میں شرکت کی حامی بھری ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں کا تعلق کشمیر اور جموں خطوں کے ساتھ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: All Party Meeting: آل پارٹی میٹنگ کے اہم نکات

جموں و کشمیر بالخصوص کشمیر میں مضبوط پکڑ رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے واضح کیا تھا کہ وزیراعظم کے ساتھ دفعہ 370 کی بحالی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ لداخ کے کسی بھی رہنما کو اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو نہیں کیا گیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سابقہ ریاست کی تقسیم کے حتمی ہونے پر مرکزی حکومت کوئی بات کرنا نہیں چاہتی حالانکہ کشمیر کے سیاسی رہنما چاہتے ہیں کہ ریاست کو دوبارہ متحد کرنے کے معاملے پر بات کی جائے۔

مرکز کے یہ اقدام بین الاقوامی برادری خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے ان بیانات کے پس منظر میں سامنے آئے ہیں جن میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں جمہوری اور انتخابی عمل کو بحال کرے۔ خطہ سنہ 2018 کے بعد سے مرکز کی حکمرانی میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: All Party Meeting: حد بندی، اسٹیٹ ہوڈ اور انتخابات سمیت مختلف امور پر بات

جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی 5 اگست 2019 کے بعد وزیراعظم کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ 'ہم مین اسٹریم جماعت ہیں اور ہم انتخابی عمل میں شامل ہوں گے۔ اگر ملاقات کا سلسلہ جاری رہے تو جو بھروسہ کم کیا گیا ہے وہ کسی حد تک بحال ہو سکتا لیکن ہم سے کوئی یہ اُمید کرے کہ ایک میٹنگ میں سب ٹھیک ہوگا وہ غلط ہوگا۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ

انہوں نے کہا کہ 'حد بندی کی ضرورت نہیں تھی۔ آسام کی حد بندی کو روکا گیا لیکن جموں و کشمیر میں یہ سلسلہ جاری رکھا گیا۔ البتہ انہوں نے کہا کہ اس میٹنگ سے نئی شروعات ہوگی۔

عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ 'پاکستان کے ساتھ بات چیت پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور خبروں کے مطابق پاکستان سے بیک چینل سے بات چیت ہو رہی ہے۔ ہم بات چیت کا استقبال کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 19 جون کو 14 سیاسی رہنماؤں کو وزیراعظم کی جانب سے میٹنگ کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان رہنماؤں کا تعلق 8 سیاسی جماعتوں- نیشنل کانفرنس(این سی)، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی( پی ڈی پی)، بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی)، کانگریس، جموں و کشمیر اپنی پارٹی، سی پی آئی (ایم)، پیپلز کانفرنس اور پینتھرس پارٹی سے ہے۔

انہیں مرکزی داخلہ سکریٹری اجے بھلا نے میٹنگ میں شرکت کے لیے 19 جون کو ٹیلیفون کے ذریعے کہا تھا۔ بعد میں انہیں باضابطہ دعوت نامے بھی روانہ کئے گئے۔ سبھی رہنماؤں نے کسی شرط کے بغیر اجلاس میں شرکت کی حامی بھری ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں کا تعلق کشمیر اور جموں خطوں کے ساتھ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: All Party Meeting: آل پارٹی میٹنگ کے اہم نکات

جموں و کشمیر بالخصوص کشمیر میں مضبوط پکڑ رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے واضح کیا تھا کہ وزیراعظم کے ساتھ دفعہ 370 کی بحالی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ لداخ کے کسی بھی رہنما کو اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو نہیں کیا گیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سابقہ ریاست کی تقسیم کے حتمی ہونے پر مرکزی حکومت کوئی بات کرنا نہیں چاہتی حالانکہ کشمیر کے سیاسی رہنما چاہتے ہیں کہ ریاست کو دوبارہ متحد کرنے کے معاملے پر بات کی جائے۔

مرکز کے یہ اقدام بین الاقوامی برادری خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے ان بیانات کے پس منظر میں سامنے آئے ہیں جن میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں جمہوری اور انتخابی عمل کو بحال کرے۔ خطہ سنہ 2018 کے بعد سے مرکز کی حکمرانی میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: All Party Meeting: حد بندی، اسٹیٹ ہوڈ اور انتخابات سمیت مختلف امور پر بات

جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی 5 اگست 2019 کے بعد وزیراعظم کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.