نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلی عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات میں تب تک حصہ نہیں لیں گے جب تک جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ دفعہ 370 کی بحالی کے لئے نیشنل کانفرنس جمہوری طور پر تمام قانونی و سیاسی اداروں میں کوشش جاری رکھے گی۔
عمر عبداللہ کے اس بیان پر سیاسی جماعتوں نے اپنا مختلف ردعمل پیش کیا۔ عوامی حلقوں میں بھی اس بیان پر کافی تبصرہ و نکتہ چینی کی گئی۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے بی جے پی کے رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق نائب وزیراعلی کویندر گپتا نے بتایا کہ عمر عبداللہ کو دفعہ 370 کی بحالی بھول جانا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر: ٹرانسپورٹرز، ڈرائیورز غربت و افلاس کے دہانے پر
انہوں نے کہاکہ 'یہ نہرو اور شیخ عبداللہ کا زمانہ نہیں ہے۔ 70 برس کا جو داغ ہم نے دھویا ہے اس کو ہم واپس آنے نہیں دیں گے۔ دریائے توی سے کافی پانی بہہ چکا ہے'۔
دیگر سیاسی جماعتوں نے عمر کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمر عبداللہ کی ذاتی رائے ہے جس پر وہ بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔ سابق وزیر اور 'جموں و کشمیر اپنی پارٹی' کے رکن غلام حسن میر نے کہا کہ عمر عبداللہ نے واضح کیا ہے کہ یہ اس کی ذاتی رائے ہے نہ کہ نیشنل کانفرنس کی۔ ان کا کہنا ہے کہ عمر عبداللہ کی ذاتی رائے پر تبصرہ یا ردعمل پیش کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ اگر نیشنل کانفرس ایسا کوئی سٹینڈ لے گی پھر اس پر کوئی بات کہی جا سکتی ہے۔
کانگریس رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر طارق حمید قرہ نے بتایا کہ پانچ اگست کے بعد کشمیر میں سیاسی بحران پیدا پوا ہے جس کے نتیجے میں یہاں کسی مدعے کی بات کرنے کو لوگ مذاق سمجھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پانچ اگست کے بی جے پی حکومت کے فیصلے سے جموں و کشمیر کے سیاسی پارٹیوں کی ساخت پر گہرا داغ لگا ہے جس کی وجہ سے عوام میں بھی ان کے تئیں کوئی قدر ہی نہیں رہی جس کے نتیجے میں عمر عبداللہ یا کوئی دوسرا رہنما کوئی بڑا یا چھوٹا بیان دے وہ معنی ہی نہیں رکھتا ہے۔ تاہم ان دونوں رہنما نے کیمرے کے سامنے بات کرنے سے انکار کیا۔
پی ڈی پی رہنما اور سابق رکن کونسل فردوس ٹاک نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اس وقت انتخابات یا ریاستی درجہ کی بحالی کے متعلق بات کرنا عوام کے ساتھ اتنی ہی بڑی بے عزتی ہے جتنی بی جے پی نے پانچ اگست کو کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی کا موقف وہی ہے جو پانچ اگست سے قبل تھا کہ وہ عوامی جزبات کی قدر کرتے ہوئے ان کی جدوجہد کو بدستور جاری رکھیں گے۔