سرینگر: پانچ اگست 2019 کو جہاں مرکز کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کیا گیا۔وہیں اس ایکٹ کے منسوخی کے بعد جموں وکشمیر میں مرکزی قوانین لاگو کیے گئے، جبکہ ریاست کے بیشتر قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا۔ ان قوانین میں سے ایک تھا کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 1986( صارفین کے حقوق کی پاسداری کرنے والا) اس قانون کی جگہ کنزیومر پروڈکشن ایکٹ 2019 نے خطے میں لی ہے۔
کنزیومر پروڈکشن ایکٹ 1986 اور نئے قانون میں کیا فرق ہے اور صارفین کے حقوق سمیت دیگر معاملات کے بارے میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندے ذوالقرنین زلفی نے ایڈوکیٹ بشیر احمد شاہ سے بات چیت کی۔ ایڈوکیٹ بشیر احمد شاہ نے کہا کہ" پُرانے اور نئے قانون میں زیادہ فرق نہیں ہے، تاہم 2019 سے 2022 کے دوران صارفین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس دوران کنزومیر کورٹس بند رہے۔ سنہ 2014 میں آیا تباہ کن سیلاب کے معاملات بھی ابھی زیر التوا تھے اور اس سے صارفین کی عدالتوں میں زیر التوا کیسز میں اضافہ ہوا، سنہ 2019 (اگست) سے قبل سب کچھ اچھے سے چل رہا تھا۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "2022 میں سرکار نے یہاں کنزیومر فورم کی جگہ کنزیومر ریڈریسل کمیشن کا قیام کیا ہیں، ایسے یہ کمشن سرینگر، بارہمولہ، بڈگام، اننت ناگ، اور حال ہی میں کپواڑہ میں بھی قائم کیا گیا۔ اس وقت ان کمیشن میں کام كاج کافی بہتر طریقے سے چل رہا ہے۔ صارفین کی شکایتوں پر سماعت ہوتی ہے اور ازالہ بھی ہوتا ہے۔ مرکز کے اعدد و شمار کے مطابق، رواں برس ستمبر مہینے کی آخر تک کنزیومر کورٹس میں 5 لاکھ 45 ہزار معاملے زیر التو ہیں۔
اس پر ایڈوکیٹ شاہ کا کہنا ہے کہ "سرینگر کا کورٹ جو گاندربل کے معاملات بھی دیکھتا ہے، روزانہ تقریباً 45-50 معاملوں پر سماعت ہوتی ہے۔ اسی طرح بڈگام میں روازنہ تقریباً 25 معاملات پر سماعت ہوتی ہے۔ اننت ناگ کا کورٹ پورے جنوبی کشمیر کے معاملات کو دیکھتا ہے، جس وجہ سے وہاں صارفین کو تھوڑی مشکلات ہوتی ہے۔" اُن کا مزید کہنا تھا کہ"یہاں بیشتر معاملات انشورنس اور الیکٹرانک آلات کے ہوتے ہیں۔ انشورنس کمپنیاں کلیم فراہم کرنے میں آنا کانی کرتی ہے جس وجہ سے معاملات درج ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کنزیومر کورٹ میں شکایت درج کرنا بہت آسان ہے، اس میں کسی وکیل کی کوئی ضرورت نہیں ہے، صرف ایک اپلیکشن دیکر معاملہ درج کر سکتے ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو عوام میں اس حوالے سے بیداری پیدا کرنے کے لیے اقدام اٹھانے چاہیے۔
مزید پڑھیں:
فاسٹ ٹریک کورٹس کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ یہاں صارفین کے مسائل چھوٹے ہوتے ہیں، اس لیے حل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے، لیکن چھٹیاں اور دیگر وجوہات کی وجہ سے معاملات میں تاخیر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "میرے حساب سے ان معاملات کو دو مہینے یا ایک سال میں حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ کرمنل معاملے نہیں ہوتے ہیں۔" اُن کا مزید کہنا تھا کہ"کنزیمورس کورٹ میں ای کورٹ کی خدمات بھی ہونی چاہئیں۔ اس سے صارفین، وکلاء اور کمپنیوں کے لیے آسانی ہوگی۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کنزیومر کورٹس آئندہ دو سے تین مہینے میں ای کورٹس خدمات شروع کر دیں گے۔