ایک معذور لیکن باحوصلہ اور باہمت خاتون سرینگر: ایس ایم ایچ ہسپتال سرینگر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہوئے بھوک اور تنہائی کی تلخ حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے جسمانی طور معذور سائمہ نور مشکلات کو اپنی ہمت اور حوصلے سے مات دے رہی ہے۔ وہیل چیئر پر اپنی زندگی گزار رہی سائمہ نور دراصل 5 سال کی عمر میں آبائی علاقے بنگلورو سے اپنے والدین سے بچھڑ گئیں تب سے لیکر آج تک ان کا رابطہ اپنے والدین سے نہیں ہو پایا اور اس حادثے کے بعد سائمہ کشمیر کی ہی ہوکر رہ گئی ہے۔ایسے میں یہ باہمت خاتوں سخت مشکلات کے باوجود خود مختار زندگی گزار کر دیگر معذور افراد کے لیے تحریک بن رہی ہے۔
ہسپتال کے شور وغل اور تنہائی سے بچنے کے لیے معذوری سے جوج رہی سائمہ نور نے ہسپتال کے وارڈ نمبر 6 کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہی کیلیگرافی اور گھریلوں سجاوٹ کی چیزیں بنانے کا فن سیکھا اور آج یہ اسی فن کی بدولت چند پیسے جٹرا کر اپنی دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتی ہے۔
ایک معذور لیکن باحوصلہ اور باہمت خاتون لیکن ہفتوں چیزیں فروخت نہ ہونے اور مہینوں نمائش میں اپنا اسٹال لگانے کا موقع فراہم نہ ہونے کی وجہ سے سائمہ نور کبھی چائے کے ایک پالی تو کبھی ایک کیلا پر اپنا گزار کرتی ہے۔ کبھی کبھار اس سے پانی سے ہی اپنی بھوک مٹانی پڑتی ہے۔وہیں سائمہ کے زندگی میں ایسے کئی دن بھی گزرے ہیں جہاں اس سے کھانے کے لئے کچھ بھی میسر نہیں ہو پایا ہے،جس کے نتیجے میں سائمہ کو بھوک کی حالت میں ہی سونے پر مجبور ہونا پڑا ہے تاہم اس سب کے باجود سائمہ نے کبھی بھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ۔سائمہ کو اکثر و بیشتر دو وقت کا کھانے بھی نصیب نہیں ہو پاتا ہے لیکن یہ ہمشیہ ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کر کے مشکلات و مسائل سے لڑ رہی ہے۔ایسے میں اپنے فنی صلاحیت کو بروئے کار لاکر دو پیسے کمانے کے لیے سخت محنت کررہی ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین کے ساتھ ایک خاص گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ بچن میں ہی اپنے والدین سے بچھڑ جانے کے بعد بنگلورو سے کشمیر سے ہی تعلق رکھنے والے ایک خاندان مجھے سرینگر لایا اور اپنے بچے کی طرح پرورش بھی کی۔ اس کنبے کے ساتھ اگرچہ تقریباً 19 سال گزارے، لیکن بعد میں ریمیٹائڈ ارتھرائٹس کی بیماری نے اس قدر جکڑ لیا کہ میں مکمل طور پر وہیل چئیر پر زندگی گزرانے پر مجبور ہوگئی۔
سائمہ نور معذور لیکن باحوصلہ اور باہمت خاتون بات چیت کے دوران سائمہ نے کہا کہ جس کنبے کے ساتھ میں رہ رہی تھی انہوں نے بھی علاج کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور علاج کی خاطر کافی پیسہ بھی خرچ کیا۔ یہاں تک ہیپ سرجری کا سارا خرچہ بھی برداشت کیا لیکن بدقسمتی سے میں صحت یاب نہ پائی۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران میں اس قدر کمزور ہو گئی کہ ہاتھ اور ٹانگوں نے بھی جواب دیے دیا ۔آخرکار میں نے ان سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ان پر مزید بوجھ نہ بن جاؤ۔
ایک معذور لیکن باحوصلہ اور باہمت خاتون
سائمہ نور اس کے بعد علاج کی غرض سے سرینگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال کا رخ کیا۔ جہاں انہیں وارڈ نمبر 6 میں کافی وقت تک داخل رہنے پڑا۔انہوں نے کہا اگرچہ بعد میں ڈاکٹروں کی جانب سے ہسپتال سے رخصت ہونے کی اجازت بھی ملی مگر کوئی اپنا نہ ہونے اور سر پر چھت کا سایا نہ ہونے کی وجہ سے میں ہسپتال میں رہنے پر مجبور تھی۔ایسے میں پھر ایک خاتون کی مدد سے ڈپٹی کمشنر سرینگر کی اجازت پر انہیں ایس ایم ایچ کے وارڈ نمبر 6 میں رہنے کی اجازت مل گئی اور اب 2018 سے سائمہ اپنی زندگی ایس ایم ایچ ہسپتال سرینگر کے کمرے میں گزار رہی ۔
مزید پڑھیں: ہمت و جواں مردی کی مثال ارشد احمد وانی
سائمہ نور زندگی کے تمام مصائب و مشکلات کا مقابلہ حوصلہ مندی، خوداعتمادی اور ہمت سے کر رہی ہے اور یہ ان جسمانی طور کمزوری افراد کے لیے مشعل راہ بھی بن رہی ہے جو کہ زندگی کے مشکلات سے خوف کھاکر جینے کی آس کھو بیٹھتے ہیں۔