نیشنل کانفرنس نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر کی زمینی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، حالات روز بہ روز خراب ہوتے جا رہے ہیں، تعمیر و ترقی کا کہیں نام و نشان نہیں، اقتصادی بدحالی نے یہاں کے لوگوں کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، بے روزگارنوجوان کی تعداد حد سے تجاوز کرگئی، عوامی حکومت کی غیر موجودگی اور انتظامی انتشار اور خلفشار کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت احمد میر نے بدھ کے روز پارٹی ہیڈکوارٹر پر ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 5 اگست کے غیر آئینی اور غیر جمہوری فیصلے کے بعد یہاں کا ہر ایک شعبہ متاثر ہوا اور کشمیر کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو نہ صرف 5 اگست کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کو منسوخ کرنا چاہئے بلکہ جموں وکشمیر کی معیشت کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کرنے کے لئے بھی مالی پیکیج کا اعلان کر چاہئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر اب بھی مرکزی حکومت کی آنکھیں نہ کھلیں تو اس سے بڑی بدقسمتی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔
جموں وکشمیر کی مبینہ اقتصادی بدحالی، غیر یقینی صورتحال اور خوف و دہشت کے ماحول پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شوکت میر نے انتظامیہ میں انتشار اور خلفشار سے زمینی سطح پر لوگوں کو درپیش مسائل و مشکلات پر بھی زبردست برہمی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے ڈیلی ویجروں، کیجول لیبروں اور دیگر عارضی ملازمین کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے کہا کہ جموں و کشمیر کے 60 ہزار عارضی ملازمین سالہا سال سے اپنی مستقلی کے منظر ہیں۔ ان عارضی ملازمین کو زبردست مشکلات کا سامنا ہے۔ عارضی ملازمین کی مستقلی ایک انسانی مسئلہ ہے اور اسے جنگی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ کی سربراہی والی حکومت نے اگرچہ ان عارضی ملازمین کی مستقلی کے لئے اقدامات کرنے کی حتمی کوشش کی لیکن مخلوط سرکار میں شامل اتحادیوں نے اس میں مختلف اڑچنیں پیدا کیں۔
شوکت میر نے عارضی ملازمین کی فوری مستقلی کیلئے ٹھوس اور کارگر اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔