ETV Bharat / state

کشمیر: تین دہائیوں کے دوران 45ہزار سے زائد جانیں تلف - نامعلوم بندق برداروں

گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کشمیر میں جاری نامساعد حالات کی وجہ سے 45,167 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں 14,990 عام شہری بھی شامل ہیں۔

کشمیر: تین دہائیوں کے دوران 45ہزار سے زائد جانیں تلف
کشمیر: تین دہائیوں کے دوران 45ہزار سے زائد جانیں تلف
author img

By

Published : Nov 5, 2020, 6:59 PM IST

جموں و کشمیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ’’سنہ 1988 سے لیکر امسال اکتوبر کے آخر تک وادی میں تصادم آرائیوں کے 56,444 واقعات پیش آئے ہیں جن میں کل 45,167 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جہاں 23,694 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے ہیں وہیں 6,483 سیکورٹی فورسز اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘

عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں کی ہلاکت کے حوالے سے پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ’’گزشتہ 32 برسوں میں کل 14,990 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں ان میں سیاسی لیڈران اور کارکنان بھی شامل ہیں۔‘‘

سیاسی کارکنان کی ہلاکت کی کل تعداد واضح نہیں ہے تاہم پولیس کے ایک سینئر افسر کے اندازے کے مطابق 4,500 کے قریب ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’واضح طور پر تو نہیں لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تقریبا ساڑھے چار ہزار ہوگی جس میں سے دس تو 2020 میں ہی ہلاک کیے گئے۔‘‘

مزید پڑھیں؛ بدنام زمانہ اخوانی پاپا کشتواڑی کی پولیس اسپتال میں موت

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’جب وادی میں عام شہری، علیحدگی پسند رہنما یا کسی عسکریت پسند کی ہلاکت ہوتی ہے تو لوگ کافی احتجاج کرتے ہیں تاہم سیاسی لیڈران کی ہلاکت پر کوئی بات نہیں کرتا، خوف ہے یا کوئی اور بات یہ سب کو معلوم ہے۔ اب آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ عسکریت پسندوں کے جنازوں میں بھی لوگ زیادہ شرکت نہیں کرتے، پولیس کی جانب سے لاشیں گھروالوں کو نہیں دینا اچھے نتیجے سامنے لا رہا ہے۔‘‘

وہیں جموں کشمیر کولیشن آف سیول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق ’’وادی میں سیاسی لیڈران پر حملے لگاتار بڑھ رہے ہیں، سنہ 2018 میں 11 افراد کو نامعلوم بندوق برداروں کی جانب سے ہلاک کیا گیا، ان میں علیحدگی پسند رہنماؤں کے علاوہ مقامی جماعتیں - جن میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، نیشنل کانفرنس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اور کارکنان بھی شامل ہیں۔‘‘

مزید پڑھیں؛ بڈگام: اغوا شدہ پولیس اہلکار کی لاش کھیت سے برآمد

جے کے سی سی ایس کے مطابق ’’نامعلوم بندق برداروں کے حملے صرف سیاسی لیڈران تک ہی محدود نہیں تھے، پولیس اور عسکریت پسندوں کے اہل خانہ پر بھی حملے ہوئے ہیں، تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ سنہ 2003 سے 2017 تک مرکزی زیر انتظام خطے میں 318 بچے تصادم کی زد میں آکر ہلاک ہوئے ہیں، ان میں سے 144 سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 147 نامعلوم بندق برداروں کے ہاتھوں۔ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی زد میں آکر 15 بچوں کی اموات ہو چکی ہے، اور تصادم آرائیوں کے دوران عسکریت پسندوں کے ہاتھوں 12 بچے ہلاک کیے گئے ہیں۔‘‘

جموں و کشمیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ’’سنہ 1988 سے لیکر امسال اکتوبر کے آخر تک وادی میں تصادم آرائیوں کے 56,444 واقعات پیش آئے ہیں جن میں کل 45,167 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جہاں 23,694 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے ہیں وہیں 6,483 سیکورٹی فورسز اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘

عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں کی ہلاکت کے حوالے سے پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ’’گزشتہ 32 برسوں میں کل 14,990 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں ان میں سیاسی لیڈران اور کارکنان بھی شامل ہیں۔‘‘

سیاسی کارکنان کی ہلاکت کی کل تعداد واضح نہیں ہے تاہم پولیس کے ایک سینئر افسر کے اندازے کے مطابق 4,500 کے قریب ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’واضح طور پر تو نہیں لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تقریبا ساڑھے چار ہزار ہوگی جس میں سے دس تو 2020 میں ہی ہلاک کیے گئے۔‘‘

مزید پڑھیں؛ بدنام زمانہ اخوانی پاپا کشتواڑی کی پولیس اسپتال میں موت

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’جب وادی میں عام شہری، علیحدگی پسند رہنما یا کسی عسکریت پسند کی ہلاکت ہوتی ہے تو لوگ کافی احتجاج کرتے ہیں تاہم سیاسی لیڈران کی ہلاکت پر کوئی بات نہیں کرتا، خوف ہے یا کوئی اور بات یہ سب کو معلوم ہے۔ اب آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ عسکریت پسندوں کے جنازوں میں بھی لوگ زیادہ شرکت نہیں کرتے، پولیس کی جانب سے لاشیں گھروالوں کو نہیں دینا اچھے نتیجے سامنے لا رہا ہے۔‘‘

وہیں جموں کشمیر کولیشن آف سیول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق ’’وادی میں سیاسی لیڈران پر حملے لگاتار بڑھ رہے ہیں، سنہ 2018 میں 11 افراد کو نامعلوم بندوق برداروں کی جانب سے ہلاک کیا گیا، ان میں علیحدگی پسند رہنماؤں کے علاوہ مقامی جماعتیں - جن میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، نیشنل کانفرنس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اور کارکنان بھی شامل ہیں۔‘‘

مزید پڑھیں؛ بڈگام: اغوا شدہ پولیس اہلکار کی لاش کھیت سے برآمد

جے کے سی سی ایس کے مطابق ’’نامعلوم بندق برداروں کے حملے صرف سیاسی لیڈران تک ہی محدود نہیں تھے، پولیس اور عسکریت پسندوں کے اہل خانہ پر بھی حملے ہوئے ہیں، تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ سنہ 2003 سے 2017 تک مرکزی زیر انتظام خطے میں 318 بچے تصادم کی زد میں آکر ہلاک ہوئے ہیں، ان میں سے 144 سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 147 نامعلوم بندق برداروں کے ہاتھوں۔ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی زد میں آکر 15 بچوں کی اموات ہو چکی ہے، اور تصادم آرائیوں کے دوران عسکریت پسندوں کے ہاتھوں 12 بچے ہلاک کیے گئے ہیں۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.