سرینگر : جموں و کشمیر انتظامیہ نے بٹہ مالو کے سابقہ بس اڈہ پر منی سیکرٹریٹ کی تعمیر کے منصوبے کی تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ مرتب کرنے اور اس پروجیکٹ کی سنگ بنیاد رکھنے کے بعد بھی روک دیا ہے۔No Mini Secretariat At Batamaloo
سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایس ڈی اے) کے ایک افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ بٹہ مالو میں منی سیکرٹریٹ کی تعمیر کا منصوبہ اب ختم کر دیا ہے۔ ایس ڈی اے اور ایس ایم سی (سرینگر میونسپل کارپوریشن) اس جگہ پر کسی دوسرے تجارتی پروجیکٹ کو تعمیر کرنے کے حوالے سے غور فکر کر رہے ہیں۔ منی سیکرٹریٹ پروجیکٹ پر کام بند کرنے کا فیصلہ ایس ڈی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کے دوران حال ہی میں لیا گیا ہے۔Srinagar Development Authority on Mini Secretariat in Batmaloo
واضح رہے کہ بٹہ مالو میں منی سیکرٹریٹ کی سنگ بنیاد سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے 2018 میں اپنے والد اور پی ڈی پی کے بانی مفتی محمد سعید کی برسی پر رکھی تھا۔ اس پروجیکٹ کا مقصد عام آدمی کی آسانی کے لیے سرینگر میں پھیلے ہوئے چار درجن سے زائد سرکاری دفاتر کو ایک ہی چھت کے نیچے لانا تھا۔ foundation stone Mini Secretariat At Batamaloo
100 کروڑ روپے کا یہ منصوبہ 114 کنال اراضی پر پھیلا ہوا تھا اور اسے دو مرحلوں میں مکمل کیا جانا تھا۔ اس کے بعد محکمہ منصوبہ بندی اور ترقی نے پہلے مرحلے کے لیے 49.93 کروڑ روپے کی ایک تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ بھی مرتب کی اور جاری کی جس کے تحت 32 دفتری جگہیں، 80 اسٹاف روم، 32 اسٹاف ہال اور دو میٹنگ ہال بنائے جانے تھے۔
منی سیکرٹریٹ میں بیسمنٹ پارکنگ، فوڈ کورٹ، ویٹنگ روم، چوبیس گھنٹے بینکنگ کی سہولت اور لفٹیں رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور اس کے مکمل ہونے پر منی سیکرٹریٹ میں تقریباً 50 سرکاری محکموں کو ایک ہی چھت کے نیچے رکھا جانا تھا تاکہ لوگ ایک ہی جگہ پر تمام سرکاری خدمات سے استفادہ کر سکیں۔
تاہم چار سال گزرنے کے بعد سابقہ بس اڈہ کی جگہ جھاڑیوں اور کچرے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئی ہے۔بٹہ ملو سرینگر میں مصروف ترین علاقوں میں سے ایک تھا اور اسے ایک مشہور بس اڈہ کے لیے جانا جاتا تھا، جسے 2017 میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے شہر میں ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے حکم کے بعد پارم پورہ منتقل کر دیا تھا۔ بٹہ مالو بس اڈہ پر پورے کشمیر سے آنے والے سیکڑوں مسافروں کے بسوں میں چھڑنے اور اترنے کے ساتھ ایک بیت بڑی مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ مارکیٹ میں مختلف قسم کے دکان جن میں زیورات آئٹمز سے لے کر ریڈی میڈ گارمنٹس کے ساتھ ساتھ ریستوراں موجود تھیں۔jk high court on batamaloo bus stand shifting
62 سالہ بٹہ مالو بس اسٹینڈ کو منتقل کرنے کے حکم پر اس وقت تاجروں، دکانداروں اور مسافروں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ کیونکہ اس بس اڈے سے ہزاروں کی تعدا میں لوگوں کو روزگار ملتا اور یہ علاقہ تجارتی سرگرمیوں کے لیے کشمیر میں جانا جاتا تھا۔ اس وقت حکومت نے یہاں کے دکانداروں اور تاجروں کو بازآبادکاری کے لیے یقین دہانی بھی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ عدے بھی کئی کھو گئے۔
یہ بھی پڑھیں:Srinagar City Looses its Trade Importance: ٹریفک بد نظامی سے سرینگرشہر اپنی تجارتی مرکزیت کھو رہا ہے
ایک بس ڈرائیور شبیر احمد نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ " بٹہ مالو بس اسٹینڈ ہی ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا۔ اس کی منتقلی کے بعد ہم مالی بحران کا شکار ہوئے ہیں۔ بس اسٹینڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس گاڑیاں کھڑی کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ بس اسٹینڈ کو واپس منتقل کر کے اس جگہ کی شان و شوکت واپس بحال کریں۔
وہیں ایک موٹر مکینک مشتاق احمد نے کہا کہ "بس اسٹینڈ میں ایک ہزار سے زائد دکانیں تھیں۔ اس بس اسٹینڈ کی منتقلی کے بعد ان کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ منی سیکرٹریٹ کے بہانے حکومت نے یہاں کے قدیم بس اسٹینڈ کو منتقل کر یہاں کے لوگوںبے روزگار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر انتظامیہ نے حال ہی میں یہاں منی سیکرٹریٹ بنانے کے فیصلے کو کلعدم کر کے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ منی سیکرٹریٹ پر کروڑوں روپے ضائع یہاں کی حکومت نے ضائر کیے ہیں اگر اس کے بدلے یہ پیسے کسی ہسپتال یا سکول پر خرچ کیے جاتے تو وہ بہرت ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ہم پریشانی میں ہیں، ہمارے بچے تکلیف میں ہیں کیونکہ ہم ان کی اسکول کی فیس ادا نہیں کر پاتے، ہم بڑی مشکل سے زندگی گزار رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:Batamaloo Traders Demand Rehabilitation: 'ہمارا روزگار نہ چھینا جائے'