جموں و کشمیر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاون نے ٹرانسپورٹ نظام سے وابستہ افراد کی کمر توڑ دی ہے-گاڑی مالکان کے بقول پانچ اگست سنہ 2019 کے بعد انہوں نے محض ڈیڑھ ماہ کام کیا ہے-
یہ لوگ لاک ڈاون سے اتنے پریشان ہیں کہ اب چند مالکان اپنی پرانی گاڑیوں کو توڑ کر کباڑ کے دام فروخت کر رہے ہیں تاکہ انکے اہل خانہ فاقہ کشی سے بچ سکے- وادی کشمیر میں ٹرانسپورٹ انجمنوں کا کہنا ہے کہ اس شعبہ پر دو لاکھ افراد بشمول بس ڈرائیور، کنڈکٹر، مستری وغیرہ کا روزگار منحصر ہے لیکن پانچ اگست سے وہ بالکل بے روزگار ہوئے ہیں-
سرینگر کے مضافات پارمپورہ بس اڈے میں سینکڑوں گاڑیوں کے پہیے پانچ اگست 2019 سے جام ہیں- پہلے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد انتظامیہ کی جانب سے 6 ماہ تک بندشوں سے یہ افراد کمائی سے محروم رہے-
پھر مارچ 2020 میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کو روکنے کے لیے لاک ڈاون اور اسکے بعد 28 اپریل سے جاری لاک ڈاؤن نے ان افراد کی کمر توڑ دی ہے- بے روزگاری سے پریشان ان بس مالکان پر سرکار کی جانب سے گاڑیوں پر ہر ماہ ٹکس، سال کا انشورنس اور دیگر ٹکس سے انکی مصیبتیں مزید بڑھ گئی ہے-
یہ افراد اس مجمصے میں ہیں کیا یہ اپنے اہل خانہ کے لیے کمائے یا ٹیکس وغیرہ ادا کرے- ایک طرف سے کورونا وائرس کی مار، دوسرے طرف سے سرکاری کا قرضہ ان مالکان کو پریشانیوں کے بھنور میں مبتلا کر رہا ہے-
جموں و کشمیر ایل جی انتظامیہ نے لاک ڈاون سے جوجھ رہے مزدوروں اور دیگر نچلے طبقے کے لئے ماہانہ وظیفہ ادا کرنے کا اعلان کیا ہے- لیکن انہیں حکومت نے ابھی تک کسی بھی رعایت یا ریلیف پیکج دینے میں نظر انداز کیا ہے-