شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ کے رہنے والے الطاف ڈار نے دعویٰ کیا کہ " ہم جے پور میں کام کرتے ہیں اور یہاں کافی عرصے سے حسن پورہ علاقے میں رہتے ہیں۔ چند روز قبل ہم راشن لانے گئے تھے، اس دوران پولیس اہلکار نے ہمارے ساتھ مار پیٹ کی۔"
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے 23برس کے ڈار کا کہنا ہے کہ " ہم شمالی کشمیر سے تقریبا پچیس لوگ یہاں کام کرتے ہیں۔ جن کے پاس اب کام کرتے تھے انہوں نے ہمیں ایک لاکھ روپے کا چونا لگا دیا جس کی وجہ سے ہمارے پاس پیسوں کی کافی قلت تھی اور اب پولیس نے ہمارے ساتھ زیادتی کی جس کی وجہ سے ہماری پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب انہوں نے پولیس کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ وہ کشمیر سے ہیں، یہاں کام کرتے ہیں اور اس وقت راشن کی تلاش میں باہر نکلے ہیں تو پولیس نے ان پر عسکری کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر پٹائی شروع کردی۔
تفصیلات بیان کرتے ہوئے ڈار نے کہا کہ "جب میں اپنے روم میٹ بلال احمد اور ایک اور ساتھی اشفاق احمد کے ساتھ لاک ڈاؤن میں ریاست کے وقت سامان لانے بازار گیا تھا تو پولیس ہمیں روک کر ہم سے پوچھنا شروع کیا۔ جیسے ہی انہیں یہ معلوم ہوا کہ ہم کشمیری ہیں پولیس نے ہمارے ساتھ مار پیٹ کی اور ہم پر عسکریت پسند ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ ہم یہاں عسکریت پسندی پہلا رہے ہیں۔ پولیس کے علاوہ وہاں موجود ایک عام شہری نے بھی ہمارے ساتھ مار پیٹ کی۔"
بلال کا کہنا ہے کی پولیس کی جانب سے ہوئی مارپیٹ سے وہ بہت بیمار ہو چکے ہیں۔
بلال کا کہنا ہے کہ " میں پلنگ سے اٹھ نہیں پا رہا۔ جسم کے ہر ایک حصے میں درد ہے سب سے زیادہ سر میں۔ مجھے خدشہ ہے کہ میرے سر میں زیادہ چوٹ نہ پہنچی ہو۔ مجھے پولیس والوں نے تب تک مارا جب تک ان کی لاٹھی ٹوٹ نہیں گئی۔ "
بلال کا مزید کہنا تھا کہ " ہمارے پاس پیسوں کی قلت کی وجہ سے ہم اپنا علاج بھی نہیں کرا پا رہے ہے۔ بھوکے پیٹ ہی روزہ رکھ رہے ہیں۔ سحری ہو یا افتیار ایک جیسا ہی لگتا ہے۔ ہم جموںوکشمیر انتظامیہ سے گزارش کرتے ہیں ہماری مدد کریں ہم نے کئی روز سے کچھ نہیں کھایا۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر پھر باہر گزر جائیں گے تو پھر ہمارے ساتھ مارپیٹ ہوگی-"
جب اس تعلق سے ای ٹی وی بھارت نے صدر پولیس اسٹیشن جایپور کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر راجندرسنگھ شکاوت سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ " یہ واقع 10 اپریل کو پیش آیا تھا۔ تین کشمیری لڑکوں کو ہم نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑا تھا جس کے بعد انہیں حراست میں لیا گیا اور اگلے روز ہدایت دے کر چھوڑ دیا گیا۔ جہاں تک پولیس اہلکاروں کی جانب سے ان کے ساتھ ہوئی مارکیٹ کی بات ہے تو اس شکایت کو ہم نے ایڈیشنل کمشنر آف پولیس کی نوٹس میں لایا ہے۔ اس معاملے پر مزید کارروائی انہی کی جانب سے کی جائے گی اور اگر کوئی پولیس والا قصور وار ثابت ہوتا ہے تو اس پر کڑی سے کڑی کاروائی کی جائے گی۔"
اسی بیج ان تینوں نوجوانوں نے پیپلز یونین آف سول لبرٹیز اور انسانی حقوق کی کارکن کویتا سریواستو کو خط لکھ کر ان کے ساتھ کوئی مارپیٹ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علاج ومعالجہ کی گزارش کی ہے۔
انہوں نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ پولیس نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ کو گالیاں گلوچ دی اور انہیں عسکریت پسند بھی کہا۔
راجستھان میں کشمیریوں کے ساتھ ہورہی زیادتیوں کا یہ چوتھا معاملہ ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل فروری کے مہینے میں 18 سالہ باسط خان کو انکے ہی ساتھ کام کرنے والے افراد نے جایپور کے ہر ماڑا علاقے میں پیٹ کر موت کی نیند سلا دیا۔
گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں چار کشمیری طلباء کو ان کے ساتھ ہی پڑھنے والے افراد نے راجستھان کے چتوڑگڑھ میں مار پیٹ کی۔ اسے قبل ستمبر کے مہینے میں راجستھان کے نیمرانا ضلع میں تیس سالہ کشمیری طالب علم کو زنانہ لباس پہنا کر پول سے باندھا گیا جس کے بعد ان کے ساتھ مار پیٹ ہوئی۔