کشمیر وادی میں خودکشی کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، مختلف علاقوں میں صرف گزشتہ 30 روز میں 10افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ انتہائی قدم سے کیا۔ ایسے میں سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ خودکشی کرنے والوں کی عمر 20سے30 سال کے درمیان ہیں۔
خودکشی کے بڑھتے واقعات کے حوالے سے ماہر نفسیات ڈاکڑ مقبول کہتے ہیں کہ اگچہ اس میں کئی وجوہات کار فرما ہیں ۔لیکن جب انسان پر زہنی تناؤ مکمل طور حاوی جاتا ہے تو انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اس سےلگتا ہے کہ شاہد موت کو گلے لگانے کے بغیر اسکے پاس اب کوئی بھی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔
انسانی دماغ ہی وہ کارخانہ ہے جہاں سوچ جنم لیتی ہے اور پھر یہی سوچ آگے چل کر خودکشی کی وجہ بن جاتی ہے۔ایک امید پرست شخص اپنے اندر مثبت سوچ لے کر آگے بڑھتا ہے جبکہ نا امید اور مایوس شخص زندگی کو منفی زاویہ سے دیکھتا ہے ۔
سماجی کارکنان اور ماہر نفسیات کا کہنا ہے والدین اپنے بچوں کو ہر ایک سہولیت میسر تو رکھتے ہیں لیکن ماہ باپ اپنے بچوں کو مناسب وقت نہیں دے پاتے ہیں لیکن بہت ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کو وقت دے ان کی پریشانیوں اور مسائل کو سننے اور ازالے کے لیے اپنا ایک بہتر اور مثب کردار ادا کریں
خود کشی ایک غیر اسلامی اور اخلاقی فعل ہے۔نوجوان ملک وقوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ نوجوان نسل میں خودکشی جیسے خطرناک رجحان کو روکنے کے لیے سماج کےہر زی حس شخص کو اپنا مثبت رول نبھانا ہوگا۔ وہیں والدین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ وہ بہتر دیکھ ریکھ کے علاوہ زندگی میں آنے والے نشیب وفراز سے نبرآزما ہونےکی اپنے بچوں میں صلاحیت بھی پیدا کریں ۔