ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ وہ اسمبلی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے تاہم وہ سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہیں گے۔
ڈی ڈی سی انتخابات میں پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلیریشن بالخصوص نیشنل کانفرنس کی کارکردگی آپکے لیے کیا معنی رکھتی ہے کیوں کہ یہ انتخابات طویل سیاسی جمود کے بعد منعقد کیے گئے اور مرکزی حکومت کی اس میں کافی مداخلت بھی رہی؟
عمر عبداللہ: پانچ اگست کے بعد بی جے پی دعوی کر رہی تھی کہ نیشنل کانفرنس کا وجود ختم ہوگیا ہے، عبدللہ خاندان اب سیاست نہیں کرے گا۔ لیکن ڈی ڈی سی انتخابات میں جس طرح سے لوگوں نے حصہ لیا اور پیپلز الائنس کی حمایت کی اور خاص طور سے نیشنل کانفرنس کو کامیاب بنایا۔ یہ ان لوگوں کو جواب ہے جو نیشنل کانفرنس کے خاتمے کی بات کرتے تھے۔ یہ نتائج ہمارے لئے حوصلہ افزاء ہیں اور ہمیں یہ لوگوں نے پیغام دیا ہے کہ ہم صحیح راستے پر گامزن ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی دعویٰ کررہی ہے کہ ان انتخابات میں مجموعی ووٹ شیئر سب سے زیادہ ان کی پارٹی کو ملا ہے جو گپکار ڈکلریشن کی شکست کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیا آپ ان کے اس دعوی سے متفق ہیں؟
عمر عبداللہ: ووٹ شیئر کا استعمال وہی لوگ کرتے ہیں جو الیکشن نہیں جیتتے ہیں۔ ہارنے والے یا تو بہانہ ڈھونڈتے ہے یا یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہوں نے الیکشن نہیں ہارا۔ ووٹ شیئر انکا زیادہ ہے کیوں کہ انہوں نے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑا اور کشمیر میں ووٹنگ کہ شرح جموں صوبے سے کافی کم رہی۔ ظاہر سی بات ہے کہ بی جی پی کا ووٹ شیئر زیادہ ہوگا۔ لیکن گزشتہ چار الیکشنز کا اگر موازنہ کیا جائے تو ان کا اپنا ووٹ شیئر کم ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جن لوگوں نے پچھلے چار انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ نہیں دئے اس الیکشن میں بھی وہ بی جے پی کو ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ جو یہ دنیا بھر میں کہتے تھے کہ جموں و کشمیر کے لوگ پانچ اگست کے فیصلے کے بعد خوش ہیں وہ ڈھونڈارا پیٹنا انکو بند کرنا پڑے گا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ڈی ڈی سی انتخابات میں مہم کے دوران الائنس کو 'گپکار گینگ' کے نام سے پکارا۔ لیکن آپ کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا- خاموشی کا کیا مقصد تھا؟
عمر عبداللہ: گپکار گینگ تو چھوٹی چیز ہے۔ وہ ہمارے بارے میں جھوٹ کہتے ہوئے تھکتے نہیں تھے۔ ان میں اتنی بھی تمیز نہیں ہے کہ وہ صحیح انداز میں ہمارے متعلق بات کر سکیں اس سے ہم چھوٹے نہیں ہوتے بلکہ وہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ اگر وہ ہمیں گینگ کے نام سے پکارتے ہیں تو انہیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
انتخابات کے نتائج کے بعد آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ بھاجپا کے پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف ریفرینڈم ہے، لیکن انتخابات کے دوران آپ خاموش رہے اور کوئی مہم نہیں چلائی یا ایک ٹویٹ بھی نہیں کیا۔ اس کے کیا وجوہات تھے؟
عمر عبداللہ: ہم نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ یہ الیکشن ہمارے تعلق سے نہ ہو یا ہم پر اس کا فوکس نہ چلا جائے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اس الیکشن میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور دیگر الائنس کے کارکنان کا تال میل زمینی سطح پر سامنے آنا چاہیے۔ اور ووٹرز کی خواہش سامنے آنی چاہئے۔
عام رائے یہ ہے کہ ڈی ڈی سی الیکشن لڑنے سے گپگار الائنس نے 5 اگست کے بعد کے جموں و کشمیر کو تسلیم کرلیا ہے؟
عمر عبداللہ: اگر ہم نے پانچ اگست کی صورتحال تسلیم کرلی ہوتی تو ہم متحدہ اور مشترکہ طور یہ انتخابات نہیں لڑتے۔ یہ الیکشن ہم نے اقتدار کے لئے نہیں لڑا، یہ ہم نے اتحاد کو ٹیسٹ کرنے کے لئے لڑا کہ کیا واقعی ہم صحیح راستے پر ہیں؟ لوگ ہمارے ساتھ ہیں کہ نہیں؟ یہ الیکشن اس منزل تک پہنچنے کے لئے ایک قدم تھا اور ہماری منزل واضح ہے کہ پانچ اگست کا جو فیصلہ لوگوں پر تھوپا گیا ہم اسے واپس لانے چاہتے ہیں۔
نتائج سامنے آنے کے بعد الائنس، کانگریس کے ساتھ مل کر 12 ڈی ڈی سی کونسل بنا سکتی ہے جس میں آزاد امیداوار کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ کیا کانگریس یا آزادامیدواروں کے ساتھ بات ہو رہی ہے؟
عمر عبداللہ: کانگریس اور کامیاب آزاد امیدواروں کے ساتھ ڈی ڈی سی کونسل بنانے کی بات ہو رہی ہے، کیوں کہ ہم سبھوں نے بی جے پی کے خلاف الیکشن لڑا ہے۔ اور جہاں ممکن ہوسکے گا وہاں ہم ان کے ساتھ مل کر کونسل بنانے کی کوشش کریں گے۔
جس طرح سے امیدواروں کے منڈیتٹ پر الائنس کے درمیان کافی خلش پیدا ہوئی تھی، چیئر پرسن بنانے میں الائنس کے شرکاء میں یہ خلش پیدا ہونے کے امکانات ہیں جو اتحاد کے لئے پہلا چلینج ہوگا۔ اس کو آپ کیسے دور کریں گے؟
عمر عبداللہ: میں اس تعلق سے واضح طور پر کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ہم پہلی بار متحدہ طور انتخابات لڑ رہے تھے۔ اور مرکز نے اس لئے اس موقع پر یہ انتخابات کروائے تاکہ یہ الائنس ٹوٹ جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم جہاں سیٹ شئیرنگ میں کامیاب ہوئے ،وہاں ہم ڈی ڈی سی کونسل چئیرمین بنانے میں بھی کامیاب ہوں گے۔
ڈی ڈی سی کے نتایج گپکار الائنس کے لئے حوصلہ کن رہے، کیا اب باضابطہ طور اسمبلی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کریں گے اور کیا اسمبلی انتخابات بھی آپ الائنس کے طرز پر لڑیں گے۔؟
عمر عبداللہ: اسمبلی انتخابات فی الحال منقعد نہیں ہوں گے کیوں کہ بی جی پی میں اب اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اسمبلی الیکشن کروائیں۔ اگر بی جے پی کے اعلی رہنما کہہ رہے ہیں کہ وہ کامیاب ہوگئے ہیں تو انتخابات کروائیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ ان انتخابات میں ان کی بری حالت ہوئی ہے۔ اور جو انہوں نے یہاں نئی جماعت کھڑی کی ہے کشمیر کے ووٹ کو بانٹننے کے لئے، ان کی بھی بری حالت ہوئی ہے۔ ڈی ڈی سی انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کی شکست ہوئی ہے۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف ای ڈی نے قانونی کاروائی شروع کی ہے۔ آپ فاروق صاحب کے وارث ہیں۔ کیا واقعی فاروق عبدللہ نے اقتدار میں رہتے ہوئے یا اس سے باہر اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا ہے جیسے کہ بی جی پی الزامات لگا رہی ہے؟
عمر عبداللہ: اس چیز کا فیصلہ عدالت میں ہی ہوگا۔ اور عدالت کے حساب سے جس شخص پر الزام ثابت نہیں ہوتا اس شخص کو بے گناہ مانا جاتا ہے۔ ابھی تک فارق عبداللہ یا کسی اور کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ہے۔ بی جے پی نے ایجنسیاں کس کے خلاف استعمال نہیں کیں۔ بی جے پی کی مخالفت کی قیمت یہی ہے کہ ایجنسیاں آپ کے پیچھے لگا دی جائیں۔ ہم یہ قیمت ادا کریں گے۔
ایک نیریٹیو یہ بن رہا ہے کہ پی ڈی پی کا وجود ختم ہو رہا ہے، اس پارٹی کا ووٹ شیئر کم ہوگیا ہے۔ کیا گپکار الائنس میں رہنا پی ڈی پی کی مجبوری بن گئی ہے؟
عمر: محبوبہ مفتی نے الائنس میں تب شرکت کی جب پانچ اگست کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔
مرکزی وزیر مملکت انوراگ ٹھاکر نے صاف لفظوں میں کہا کہ جس آئینی دفعہ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے رد کردیا ہو، اسکی بحالی کا کوئی امکان نہیں اور یہ مؤقف مرکزی حکومت کے سبھی اہم اراکین کا ماضی میں بھی رہا ہے۔ اس پس منظر میں کیسے عوام کو یہ یقین دلا سکتے ہیں کہ آپ ریاست کی سابق پوزیشن بحال کراسکیں گے۔
عمر عبداللہ: ہم لڑتے رہیں گے۔ اگر بی جے پی کہہ رہی ہے کہ یہ الیکشن جمہوریت کی جیت ہے تو پھر جمہوریت میں جو لوگ کہتے ہیں اس پر عمل ہونا چاہئے۔ ہم آئین کے باہر کی بات نہیں کرتے ہیں اور ہم اپنے ملک کے آئین کو یہاں اس صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جس صورت میں یہ یہاں تھا۔ یہ کوئی غلط بات نہیں ہے۔
تنظیم نو قانون 2019 کے تحت اب جموں و کشمیر یو ٹی اسمبلی برائے نام ہوگی۔ اگر دیکھا جائے تو اس کو آئینی طور سے وہ حیثیت یا اختیارات نہیں ملیں گے جو سابق ریاست کی اسمبلی کو حاصل تھے۔ کیا اب بھی آپ ایسی اسمبلی کیلئے انتخاب لڑیں گے جیسا کہ آپ نے پہلے اعلان کیا ہے۔ یا ایسی صورتحال میں وزیر اعٰلی بننا پسند کریں گے؟
عمر عبداللہ: فی الحال میرا کوئی ارادہ نہیں ہے اسمبلی الیکشن لڑنے کا۔ میں اسکو دفعہ 370 کی تنسیخ یا ریاستی درجہ کی بحالی کے ساتھ جوڑتا ہوں۔ ممکن ہے کہ میں کبھی الیکشن لڑوں ہی نہ۔ میرے ساتھ جودھوکے بازی ہوئی ہے اس چیز کو سمجھانے کے لئے میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں۔ ہاں، سیاست نہیں چھوڑوں گا۔ مجھے یہاں کے لوگوں کے حقوق کے لئے لڑنا ہے، اپنی جماعت کو مضبوط کرنا ہے۔ اس ریاست کو میں خوشحال مقام پر دیکھنا چاہتا ہوں اس کے لیے اپنا مشن جاری رکھوں گا۔