ممبئی: بامبے ہائی کورٹ نے ایک کشمیری پروفیسر کی درخواست کو خارج کر دیا ہے۔ جس میں ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عرضی گزار کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے، جو کولہاپور کے ایک کالج میں بطور پروفیسر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے جموں و کشمیر کے لیے 5 اگست کو 'سیاہ دن' بتاکر واٹس اپ اسٹیٹس لگایا تھا۔ یاد رہے کہ اسی دن جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے واٹس ایپ پر قابل اعتراض پیغامات بھی شیئر کیے تھے۔ انہوں نے 14 اگست کو پاکستان کا یوم آزادی مبارک جیسے پیغامات بھی شیئر کیے تھے۔ اس لیے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ پروفیسر نے اپنے خلاف مقدمے کو منسوخ کرنے کے لیے بامبے ہائی کورٹ سے رجوع کیا، لیکن بامبے ہائی کورٹ نے کیس کو منسوخ کرنے سے انکار کردیا۔
کورٹ نے کہا کہ حساس معاملات میں تنقیدی یا اختلافی خیالات کا اظہار مناسب تجزیہ کے بعد کیا جانا چاہیے۔ بنچ نے کہا کہ درخواست گزار، ٹیچر ہے، مذکورہ پیغامات سے لوگوں کے مختلف گروہوں کے دماغ پر اثر پڑا اور یہ سیکشن 153 اے کے تحت ایک جرم ہے۔ بنچ نے کہا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران شواہد کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی میرٹ کی بنیاد پر جرم کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کے لیے موزوں کیس نہیں ہے۔ جسٹس سنیل شکرے اور جسٹس ایم ایم ساٹھے نے 'ایف آئی آر' کو منسوخ نہ کرنے کے لیے ایک اہم مشاہدے پر روشنی ڈالی۔
عدالت نے کہا کہ یہ بغیر کسی تشخیص اور جواز کے شیئر کیا گیا میسیج ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیر بحث واٹس ایپ میسیج سے کچھ لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے اور انہوں نے پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی۔ اس لیے کولہاپور پولیس نے دفعہ 153 دے کے تحت کیس درج کرلیا۔ اس سلسلے میں ہائی کورٹ نے کہا کہ ہماری رائے میں دونوں پیغامات بھارت میں لوگوں کے مختلف گروہوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ اس لیے ایسے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے احتیاط کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں : Bombay HC on love Jihad بامبے ہائی کورٹ نے لو جہاد کے دعوے کو مسترد کر دیا