وادی کشمیر میں کورونا کی دوسری لہر کے قہر کے بیچ کسان کھیتوں میں دھان کی پنیری لگانے کے کام میں مصروف گئے ہیں۔
سال گذشتہ کی طرح امسال بھی کھیتوں میں غیر مقامی مزدوروں کے بجائے مقامی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہی دھان کی پنیری لگانے میں مصروف دیکھا جا رہا ہے۔
ہم آپ کو بتا دیں کہ وادی میں کھیتی باڑی کے کام میں بھی زیادہ تر غیر ریاستی مزدوروں ہی دیکھے جاتے ہیں۔ دھان کی پنیری لگانے سے فصل کٹائی تک ان ہی مزدوروں سے کام کرایا جاتا تھا لیکن گذشتہ دو برسوں سے کورونا وبا کے باعث مقامی لوگ بالخصوص نوجوان خود ہی کھیتی باڑی کا کام کر رہے ہیں۔
اگرچہ کہیں کہیں غیر مقامی مزدور بھی نظر آ رہے ہیں لیکن ان کی تعداد کافی کم ہے۔
ادھر بزرگ کسانوں کا کہنا ہے کہ کورونا وبا سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ نوجوان خود کھیتوں میں جا کر کام کرنے لگے۔
وادی کے دیہات میں اگرچہ ابھی دھان کی پنیری کا کام شروع نہیں ہوا ہے لیکن میدانی علاقوں میں دھان کی پنیری لگانے کا کام شد و مد سے جاری ہے۔
قصبہ بڈگام کے عترت آباد کری پورہ میں پیر کے روز کھیت کھلیانوں میں ہر طرف لوگ جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل تھی، دھان کی پنیری لگانے میں مشغول تھے۔
کھیتوں میں کام کرنے کے دوران بعض لوگوں نے جہاں فیس ماسک لگا رکھے تھے وہیں سماجی دوری اور دیگر احتیاطی تدابیر پر بھی عمل کیا جا رہا تھا۔
باقی علاقوں میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد کھیت کھلیانوں میں مشغول دیکھی گئی جو کھیت کو دھان کی پنیری لگانے کے لئے تیار کر رہے تھے۔
نوجوانوں کے ایک گروپ نے کہا کہ کورونا کرفیو کے دوران گھروں میں مقید ہونے سے ہم نے سال گزشتہ کی طرح امسال بھی دھان کی پنیری لگانے کا کام خود کرنا شروع کیا ہے۔
ایک نوجوان نے بتایا کہ کھیت میں خود کام کرنے سے صرف پیسہ ہی نہیں بچتا ہے بلکہ یہ ہماری صحت کے لئے بھی فائدہ بخش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نصف درجن دوست ایک دوسرے کے کھیتوں میں کام کر رہے ہیں اس طرح کام کے دوران لطف بھی آتا ہے اور بھائی چارہ بھی مزید بڑھ جاتا ہے۔
ادھر بزرگ کسانوں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے یہ فائدہ ہوا کہ تعلیم یافتہ نوجواںوں کو کھیت میں جا کر کام کرنے کا موقع مل گیا۔
غلام محمد نامی ایک بزرگ کسان نے بتایا: 'ہمارے نوجوان کھیتوں پر شاذ و نادر ہی جایا کرتے تھے اور یہاں سارا کام بیرون وادی کے مزدور ہی کیا کرتے تھے لیکن اس سال ہمارے نوجوان جب گھروں میں ہی بند ہوگئے تو انہیں کھیتوں پر جا کر کام کرنے کا موقع مل گیا'۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف زرعی اراضی سکڑ رہی ہے تو دوسری طرف نوجوان طبقہ ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے جس سے یہاں اس اہم ترین شعبے پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔
محکمہ زراعت کے اعداد وشمار کے مطابق وادی میں گزشتہ چار برسوں کے دوران قریب 80 ہزار ہیکٹر زرعی زمین کو دیگر مقاصد بالخصوص رہائشی و کمرشل ڈھانچوں کی تعمیر اور میوہ باغات میں بدلنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی، جہاں لوگوں کی بنیادی خوراک چاول ہے، میں زرعی زمین کا تیزی سے سکڑنا اس ہمالیائی خطہ کے مستقبل کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ پابندی کے باوجود زرعی زمین پر رہائشی و کمرشل ڈھانچے تعمیر کرنے کی اجازت دینا بدقسمتی ہے جبکہ زیادہ کمائی کی لالچ میں زرعی زمین کو میوہ باغات میں بدلنا بھی افسوسناک ہے۔
یو-این-آئی